عرب دنیا میں رمضان کے استقبال کے لیے فانوس روشن کرنے کی روایت کیسے شروع ہوئی؟

فائل فوٹو۔

رمضان کا مہینہ آتے ہی عرب دنیا کے بازاروں میں ہر طرف قسم قسم کی لالٹینیں فروخت کے لیے آجاتی ہیں جنہیں عربی زبان میں ’فانوس‘ کہا جاتا ہے۔

فانوس صرف عرب ممالک ہی نہیں دنیا بھر میں رمضان کی روایات کی علامت بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے رمضان کی مبارک باد کے کارڈز اور پیغامات کا بھی لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔

رمضان میں گلیوں بازاروں اور گھروں پر فانوس لگانے کی روایت کا آغاز مصر سے ہوا اور رفتہ رفتہ پورے عرب میں اس کا رواج ہوگیا۔لیکن خود مصر میں رمضان کے لیے فانوس کی سجاوٹ کی رسم کیسے چلی؟ اس سے متعلق کئی تاریخی روایات بیان کی جاتی ہیں۔

خلیفہ کا استقبال

اگرچہ فانوس کا لفظ یونانی زبان سے عربی میں آیا تاہم روشنی کے لیے لالٹین اور اس سے ملتی جلتی مشعلوں وغیرہ کے استعمال کا سراغ قدیم مصری تہذیب میں بھی ملتا ہے۔

تاہم مصر میں رمضان میں فانوس کو سجاوٹ کے لیے استعمال کرنے کے بارے میں مؤرخین کی رائے ہے کہ یہ ایک ہزار سالہ قدیم روایت ہے۔

تاریخی کتب کے مطابق فاطمی خلیفہ المعز لدین اللہ 970 عیسوی میں جب قاہرہ میں داخل ہوئے تو وہ 358 ہجری کے رمضان کا پانچواں دن تھا۔

اس روز بڑی تعداد میں مرد، بچے، عورتیں صحرائے جیزہ (مصری تلفظ گیزہ) تک خلیفہ کے استقبال کے لیے گئے۔ چوں کہ خلیفہ رات کے وقت شہر میں داخل ہونے والے تھے اس لیے استقبال کرنے والوں نے روشنی کے لیے ہاتھوں میں مشعلیں اور سجائی ہوئی لالٹینیں اٹھا رکھی تھیں۔

معروف عرب مؤرخ تقی الدین مقریزی کے مطابق خلیفہ کو استقبال کا یہ طریقہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے رمضان میں چراغاں کااہتمام کرنا شروع کردیا۔خلیفہ نے قاہرہ میں ایسے 500 ہنر مند جمع کرلیے تھے جو ہر سال رمضان سے قبل خصوصی طور پر مساجد اور گھروں کے باہر روشنی کے لیے خصوصی فانوس تیار کرتے تھے۔

رمضان میں خواتین کی محفلیں

عرب ثقافت پر شائع ہونے والے ایک سعودی میگزین ’المجلہ‘ کے مطابق فانوس کے رواج پانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فاطمی خلفا پورے رمضان رات بھر روشنی کا اہتمام کرتے تھے۔

بعض مؤرخین کے نزدیک اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فاطمی خلیفہ الحکیم نے خواتین پر بغیر لالٹین کے گھر سے باہر جانے پر پابندی عائد کردی تھی۔ عام طور پر خواتین عبادت کے لیے مساجد یا مختلف گھروں میں جمع ہوتی تھیں۔ اس لیے نہ صرف راستے روش کیے جاتے تھے بلکہ چھوٹے بچے بھی ان کے ساتھ لالٹین اٹھا کر چلتے تھے۔

اس بارے میں ایک اور دل چسپ روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ رمضان میں خواتین عام طور پر دیر تک جاگتی تھیں اور محلے کی کسی بزرگ خاتون کے پاس جمع ہو کر ان سے گئے دور کے قصے اور نصیحت کی باتیں سنا کرتی تھیں۔

رات گئے سجنے والی ان محفلوں سے واپسی پر کوئی ملازم یا گھر کا کوئی بچہ ان کے ساتھ لالٹین اٹھا کر چلتا تھا۔ اس کے علاوہ حکومت نے پولیس والوں کو بھی حکم دیا تھا کہ وہ رات کو گشت کے وقت اپنے پاس لالٹین رکھیں۔

فانوس اب بھی روشن ہے

صدیوں تک قاہرہ میں جاری رہنے والی رسم وقت کے ساتھ ساتھ مصر کے پڑوسی عرب ممالک میں بھی پہنچ گئی۔ آج دمشق، حلب، یروشلم اور غزہ میں بھی گلیوں، بازاروں میں روشن فانوس رمضان کی آمد کا پتا دیتے ہیں۔

وقت کے ساتھ فانوس کی شکل و صورت بدلتی گئی۔ ان کی اقسام کے نام سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح یہ مصری کلچر کا حصہ بن چکی ہیں۔

مصری پارلیمنٹ کے ہال کے نقشے سے مشابہت رکھنے والے فانوس کا نام بھی ’پارلیمنٹ‘ ہے۔ اسی طرح مصر کے بادشاہ رہنے والے شاہ فاروق کی سالگرہ کے موقعے پر ڈیزائن کی گئی لالٹین کو آج ’فاروق‘ فانوس ہی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ابو حشوہ ، ابو شرف اور ابو ولد نام سے مختلف ڈیزائن بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ نام انہیں ڈیزائن کرنے والے فن کاروں کے نام پر ہیں۔

عرب ثقافت کے ایک اسکالر ڈاکٹر ناصف قاید کا کہنا ہے کہ بجلی اور روشنی کے لیے جدید آرائشی سامان کی ایجاد کے بعد بھی فانوس کا رواج باقی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسلام میں رمضان سے ایسی کوئی علامت خاص نہیں۔ لیکن ثقافتی و مذہبی علامتوں کے درمیان ایک باریک فرق ہوتا ہے۔ مثلاً کرسمس کے لیے سجائے جانے والا درخت ایک تہوار کی علامت تو ہے لیکن مسیحی مذہب کی نہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ فانوس اس طرح عرب کلچر میں رچ بس گیا ہے کہ آئندہ نسلیں بھی رمضان کے استقبال کے لیے ہاتھ میں انہیں اٹھائے رمضان کے گیت گاتی رہیں گی۔