جون 1958 کے اوائل میں صدر اسکندر مرزا معمول کے مطابق پورے ایک بجے اپنے کمرے سے اٹھ کر اپنے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کی دفتر کی کھڑکی کے پاس آئے۔انہوں نے معمول کے مطابق پوچھا "کوئی ضروری کام تو نہیں؟" نفی میں جواب ملنے پر وہ خدا حافظ کہہ کر ایوانِ صدر کی جانب چل پڑے۔ لیکن تھوڑی ہی دور چلنے کے بعد دوبارہ تیز تیز قدموں سے واپس آتے دکھائی دیے۔
قدرت اللہ شہاب اپنی خودنوشت ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ اسکندر مرزا ان کے کمرے میں آئے اور کہا کہ وہ ایک ضروری بات تو بھول ہی گئے تھے۔ یہ کہہ کر انہوں نے شہاب کی میز سے ایک ورق اٹھایا اور وہیں کھڑے کھڑے وزیرِ اعظم فیروز خان نون کے لیے ایک دو سطری نوٹ لکھا۔
اس نوٹ میں کہا گیا تھا کہ ہماری باہمی متفقہ رائے کے مطابق بری افواج کے کمانڈر ان چیف کے طور پر جنرل محمد ایوب خان کی ملازمت میں دو سال کی توسیع کے احکامات فوری جاری کردیے جائیں۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ صدر نے اس پر ’موسٹ امیجیئٹ‘ کا لیبل اپنے ہاتھ سے لگایا اور حکم دیا کہ یہ نوٹ سیکریٹری خود جا کر عملے کے بجائے وزیرِ اعظم کو براہِ راست پہنچائیں۔
شہاب لکھتے ہیں، "یہ مختصر سا پروانہ بڑی عجلت میں اور اس قدر لاپروائی کے عالم میں لکھا گیا تھا کہ صدر اسکندر مرزا کے ہونٹوں مں لٹکے ہوئے سگریٹ کی راکھ بھی اس پر دو بار گر چکی تھی۔ لیکن کاغذ کے اس چھوٹے سے پرزے نے ہمارے ملک کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ اگر جون 1958 میں جنرل ایوب کی میعادِ ملازمت میں دوسال کی توسیع نہ ہوتی تو پاکستان کی تقدیر کا ستارہ جس انداز سے چمکتا، اس کا زائچہ تیار کرنے کے لیے کسی خاص علم نجوم کی ضرورت نہیں ہے۔"
کہانی شروع ہوتی ہے!
جنرل ایوب کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا تھا بلکہ یہ ان سلسلہ وار واقعات کی ایک کڑی تھی جس نے پاکستان میں سات اکتوبر 1958 کو پہلے مارشل لا کی راہ ہموار کی۔ اس سلسلے کا آغاز پاکستان بننے کے فوری بعد ہی ہو گیا تھا۔
پاکستان کے قیام کے ابتدائی برسوں ہی سے سیاسی نظام عدم استحکام سے دوچار تھا۔ ملک بننے کے ایک سال بعد بانیٔ پاکستان محمد علی جناح دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی ملک بنانے والی جماعت مسلم لیگ میں اقتدار کی کشمش کا آغاز ہوا۔
پاکستان کی تاریخ پر کئی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنی تصنیف ’مسلم لیگ کا دورِ حکومت‘ میں لکھا ہے کہ "مسلم لیگ کے جن رہنماؤں کو تحریکِ پاکستان میں قیادت کا شرف حاصل ہوا، انہیں قیامِ پاکستان کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے کے اندر محض اقتدار کے لیے سیاست کا یہ کھیل زیب نہیں دیتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر مسلم لیگی رہنماؤں کو قوم اور ملک کی مشکلات کا احساس نہیں تھا۔"
سیاسی حالات نے ایک اور بڑی کروٹ اس وقت لی جب مسلم لیگ کے اہم رہنما اور پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے ایک جلسہ عام میں قتل کر دیا گیا۔ صفدر محمود کے مطابق اس قتل کے بارے میں بھی عام خیال یہی تھا کہ یہ کسی منظم سازش کے تحت کیا گیا تھا۔
صفدر محمود لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد اس وقت کے وزیرِ خزانہ غلام محمد وزیرِ اعظم بننے کی تیاری کر رہے تھے۔ لیکن گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا اور غلام محمد کو گورنر جنرل بنا کر خود وزیرِ اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔
تاریخ دان عائشہ جلال اپنی کتاب ’دی اسٹیٹ آف مارشل رول‘ میں خواجہ ناظم الدین کے اس اقدام کو پاکستان کی بیورو کریسی میں اقتدار کے لیے مسابقت کا نکتۂ آغاز قرار دیتی ہیں۔
عائشہ جلال نے لکھا ہے کہ عبوری آئین میں وزیرِ اعظم کی موت کی صورت میں گورنر جنرل کو نئی کابینہ بنانے کی ذمے داری دی گئی تھی۔ گورنر جنرل نے اس کے بجائے خود ہی وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی۔ اس فیصلے سے آئین میں دیا گیا انتقالِ اقتدار کا طریقہ غیر متعلق ہوگیا اور عائشہ جلال کے مطابق پارلیمنٹ اور عوام کی رائے بھی بے وقعت ہو گئی۔
صفدر محمود کے مطابق مسلم لیگ کا بنگالی گروپ وزارتِ عظمی حاصل کرنے کے لیے بے چین تھا۔ ان کا خیال تھا کہ گورنر جنرل بے اختیار اور محض آئینی سربراہ ہوتا ہے اس لیے انہوں نے غلام محمد کو یہ عہدہ دینے کی حمایت کی۔ لیکن ان کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔
طاقت ورمثلث
غلام محمد وہ پہلے سرکاری افسر تھے جنہیں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے مالیاتی امور کے تجربے کی وجہ سے کابینہ میں شامل کیا تھا۔ ایک نوزائیدہ ملک میں کوئی متفقہ آئینی بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے یہ ایک عبوری انتظام تھا۔ لیکن بعد میں غلام محمد گورنر جنرل بن بیٹھے۔ بعد ازاں وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین کی کابینہ میں بھی ایک اور سرکاری افسر چوہدری محمد علی کو خزانہ کا قلم دان دیا گیا۔
اپنی کتاب ’مسلم لیگ کا دورِ حکومت‘ میں صفدر محمود لکھتے ہیں کہ غلام محمد کا گورنر جنرل بن جانا بھی حیرت انگیز تھا۔ لیکن بعد ازاں چوہدری محمد علی کا وزیرِ اعظم بننا سیاست میں قیادت کے فقدان کی واضح مثال تھی۔
اس کے علاوہ صفدر محمود کے نزدیک صوبائی وزرائے اعلٰی کی بار بار برطرفی اور گورنر راج کا نفاذ بیورو کریسی کے سیاست میں غلبے کی مرکزی وجہ تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد سات برسوں میں 10 صوبائی وزرائے اعلیٰ کو کرپشن کے الزامات کی بنا بر برطرف کیا گیا اور صوبوں میں گورنر راج نافذ کیے گئے۔
صفدر محمود لکھتے ہیں کہ گورنر راج کا مطلب ہوتا ہے بیورو کریسی کی حکومت۔ بار بار گورنر راج لگنے سے بیورو کریسی مضبوط ہوئی اور اسے اقتدار کا 'چسکا' پڑ گیا۔
پاکستان میں فوج کے کردار کی تاریخ پر اپنی کتاب ’کراس سورڈز‘ میں شجاع نواز لکھتے ہیں کہ سیاسی اداروں کی اس کمزوری کی وجہ سے اہم فیصلوں اور پالیسی سازی میں بیوروکریٹس کا کردار بڑھتا چلا گیا۔
ان کے مطابق اس دور میں تین افراد کی مثلث تیزی سے پاکستان کی سیاست میں طاقت ور ہوئی۔ سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا، سیکریٹری خزانہ غلام محمد اور اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان عدلیہ کی مدد سے ریاستی اداروں پر اپنی گرفت جما چکے تھے۔
قیامِ پاکستان کے وقت اسکندر مرز اور غلام محمد انڈین سول سروس کے سینئر ترین افسر تھے۔ ایوب خان پاکستان کی فوج کے پہلے مقامی سربراہ تھے اور مؤرخین کے مطابق انہیں یہ عہدہ اسکندر مرزا کی مدد سے حاصل ہوا تھا۔ اس سے قبل دو سینئر فوجی جرنیلوں کے فضائی حادثے میں موت سے ان کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔
مارشل لا سے پہلے مارشل لا
حسن عسکری رضوی اپنی کتاب ’ملٹری اینڈ پالیٹکس ان پاکستان‘ میں لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان کے بعد وزیرِ اعظم بننے والے خواجہ ناظم الدین ایک مخلص سیاست دان تھے۔ لیکن بیورو کریسی ان کے طرزِ حکمرانی کو پسند نہیں کرتی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا تعلق بنگال سے تھا۔
پاکستان کے قیام کو چھ برس سے زائد کا عرصہ ہوچکا تھا۔ لیکن سیاسی قیادت ملک کا متفقہ آئین نہیں بنا سکی تھی۔ قانونِ آزادیٔ ہند 1947 کی دفعہ 18 اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کو بعض ترامیم کے ساتھ عبوری آئین کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔ یہ محض انتظامی امور چلانے کے لیے تھا لیکن ایک مکمل دستور کی ضروریات پوری نہیں کرتا تھا۔
لیاقت علی خان متفقہ آئین نہیں بنا سکے اور اس کے بعد خواجہ ناظم الدین بھی یہ کام نہیں کر سکے۔
خواجہ ناظم الدین نے بنیادی اصولوں کی ایک کمیٹی بنا کر دستور ساز اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے سفارشات تیار کرائیں۔ لیکن پارلیمان میں تمام صوبوں کی مساوی نمائندگی کی تجویز کی وجہ سے مسلم لیگ کے اندر ہی تنازعات پیدا ہو گئے۔
اسی دوران احمدیوں کو غیر مسلم قرار دلانے کی تحریک شروع ہوگئی۔ اس تحریک کا مطالبہ تھا کہ احمدی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خارجہ سر ظفر اللہ خان کو کابینہ سے برطرف کیا جائے۔
صفدر محمود کی کتاب ’مسلم لیگ کے دورِ حکومت‘ کے مطابق پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ممتاز دولتانہ کا خیال تھا کہ ’یکساں نمائندگی‘ کے فارمولے سے پنجاب کو نقصان ہوگا۔ جب کہ خواجہ ناظم الدین کا مؤقف تھا کہ دولتانہ بنیادی سفارشات تیار کرنے والی کمیٹی کا حصہ تھے اور اس کی سفارشات پر ان کے دستخط بھی تھے۔ البتہ دولتانہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان سفارشات پر اختلافی نوٹ لکھا تھا۔
بہرحال اس معاملے پر خواجہ ناظم الدین اور ممتاز دولتانہ میں اختلافات بڑھ گئے اور صفدر محمود کے مطابق دولتانہ خواجہ ناظم الدین کو وزارت سے ہٹانے کی ترکیبیں سوچنے لگے۔
انہوں نے مزید لکھا ہے کہ "چناں چہ دولتانہ صاحب نے اینٹی قادیانی تحریک کو غنیمت جانا اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔" صفدر محمود لکھتے ہیں کہ خواجہ ناظم الدین کے مذہبی جھکاؤ اور کاہلی، علما سے خوف اور نااہلی نے اس تحریک کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔
اس تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے مغربی پاکستان میں کئی شہروں میں امن و امان خراب ہوا۔ ملک کے تقریباً ہر حصے سے مختلف دھڑوں کے درمیان تصادم کی اطلاعات موصول ہو رہی تھیں۔لاہور میں حالات اس قدر بگڑ گئے کہ وہاں 6 مارچ 1953 کو مارشل نافذ کرنا پڑا۔
اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا نے اپنی کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ میں لکھا ہے کہ ان کے والد ہی نے وزیرِ اعظم کو مارشل لا لگانے پر قائل کیا تھا۔ ان کی ہدایات پر سیالکوٹ ڈویژن سے میجر جنرل اعظم خان کو کمک فراہم کی گئی جنہوں نے تیزی سے صورتِ حال پر قابو پا لیا۔
ڈاکٹر صفدر محمود لکھتے ہیں کہ اس آگ نے جہاں خواجہ ناظم الدین کو اپنی لپیٹ میں لیا وہیں ’دولتانہ صاحب کا سیاسی آشیانہ بھی جلا کر راکھ کر دیا۔ خواجہ ناظم الدین لاہور پہنچے اور انہوں نے دولتانہ سے استعفی لے لیا۔ اور ان کی جگہ کہنہ مشق سول سرونٹ فیروز خان نون کو وزیرِ اعلیٰ پنجاب بنا دیا گیا۔
بحران کے بعد بحران
یہ بحران ابھی پوری طرح قابو میں بھی نہیں آیا تھا کہ پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا ہوگیا اور ملک کو اقتصادی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
مؤرخین کے مطابق گورنر جنرل غلام محمد اس صورتِ حال پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انہوں نے ان بحرانوں کو بنیاد بنا کر 17 اپریل 1953 کو خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمی سے برطرف کردیا اور اسمبلیاں تحلیل کردیں۔
صفدر محمود کے مطابق غلام محمد گورنر جنرل کی حیثیت سے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔ لیکن آئین سازی کی صورت میں یہ ممکن نہ ہوتا۔ خواجہ ناظم الدین ملک کا پہلا آئین بنانے کے کوششیں تیز کرچکے تھے اور اسی لیے غلام محمد نے انہیں برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔
گورنر جنرل کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اس اقدام کے خلاف آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔
ہائی کورٹ کے جج جسٹس کارنیلئس نے گورنر جنرل کے اقدام کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف گورنر جنرل نے اس وقت کی فیڈرل کورٹ میں اپیل کر دی۔
جسٹس محمد منیر اس وقت پاکستان کے چیف جسٹس تھے اور انہوں نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیتے ہوئے گورنر جنرل کے فیصلے کو برقرار رکھا۔
پاکستان میں لگنے والے پہلے مارشل لا پر کیلی فورنیا کے نیول پوسٹ گریجویٹ اسکول کے لیے اپنے تحقیقی مقالے میں محقق نغمان چوہدری نے لکھا ہے کہ اس فیصلے سے فوج اور بیوروکریسی ملک میں بادشاہ گر بن گئے اور سیاست دانوں کو مزید دیوار سے لگا دیا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جسٹس منیر کے اس فیصلے نے مستقبل کی فوجی مداخلتوں کی راہ بھی ہموار کی اور اقتدار کو طول دینے کے لیے بیورکریسی اور فوجی قیادت کو عدلیہ پر انحصار کا راستہ بھی دکھایا۔
آرمی چیف کابینہ میں
قدرت اللہ شہاب کے مطابق گورنر جنرل غلام محمد آئین سازی کے متعلق ہر قسم کے اختیار اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے ان کا ارادہ تھا کہ وہ آئین ساز اسمبلی کی جگہ اپنی مرضی کے کچھ لوگوں کو نامزد کرکے ایک آئینی کنونشن تشکیل دے دیں اور اسی سے آئین بنوا لیں۔
شہاب کے مطابق غلام محمد کو عدالتی فیصلے سے یہ اختیار حاصل نہیں ہوسکا تھا اور عدالتی فیصلے میں انہیں یہ تجویز دی گئی تھی کہ وہ برطرف اسمبلیوں کی جگہ نئی اسمبلیوں کا انتخاب منعقد کرائیں۔
عدالتی فیصلہ آنے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی لیکن اکتوبر 1954 کو ایک اور بیوروکریٹ محمد علی بوگرہ کو وزیر اعظم بنا دیا۔
سرحد سے ڈاکٹر خان صاحب اور حسین شہید سہرودی کے ساتھ ساتھ آرمی چیف جنرل ایوب خان کو بھی وزارتِ دفاع کا عہدہ دے کر کابینہ میں شامل کر لیا گیا۔
شجاع نواز کے مطابق اس کے بعد بیوروکریٹ اور فوج مل کر وزیرِ اعظم تبدیل کرتے رہے اور سیاست دان عوام کی نظر میں مزید بے اعتبار ہو گئے۔
اسکندر مررزا کے دور کا آغاز
گورنر غلام محمد کی صحت تیزی سے خراب ہو رہی تھی۔ وہ علاج کے لیے بیرورنِ ملک چلے گئے اور اس دوران ایک اور سینئر بیوروکریٹ اور وزیر داخلہ اسکندر مرزا قائم مقام گورنر جنرل بن گئے۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ غلام محمد جب ملک واپس آئے تو ان کی دماغی حالت پیچیدہ ہوگئی تھی۔ اسکندر مرزا اور ایوب خان نے انہیں عہدے سے سبکدوش کرانے کے لیے رابطے شروع کردیے تھے۔ بالآخر یہ کوشش کام یاب ہوئی اور اگست 1955 میں اسکندر مزا نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا اور وزیر اعظم محمد علی بوگرہ سے استعفی لے لیا۔
اسکندر مرزا بیوروکریسی اور فوج دونوں ہی میں کام کا تجربہ رکھتے تھے۔ ان کا تعلق نوابینِ بنگال کے خاندان سے تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کو 1757 میں شکست دی تھی۔ اس جنگ میں سراج الدولہ کے فوجی جنرل سید میر جعفر علی خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا ساتھ دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اسی خدمت کے صلے میں میر جعفر علی خان کو بنگال کا نواب بنادیا گیا تھا اور انہی کا خاندان بعد میں نوابینِ بنگال کہلایا۔ اسکندر مرزا کا تعلق اسی نوابینِ بنگال کے خاندان سے تھا۔
اسکندر مرزا کے بیٹے ہمایوں مرزا کی کتاب ’پلاسی ٹو پاکستان‘ کے مطابق پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانوی حکومت نے ہندوستان کی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو فوج کی قیادت میں شامل کرنے کے لیے انہیں برطانیہ کے سینڈ ہرسٹ ملٹری کالج سے تربیت دلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس کے لیے جن پانچ نوجوانوں کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں اسکندر مرزا بھی شامل تھے۔ ان پانچوں میں صرف اسکندر مرزا ہی کمیشن حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ وہ سینڈ ہرسٹ ملٹری کالج سے کمیشن سے حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی تھے۔
اسکندر مرزا نے 1930 میں فوج کو خیرباد کہہ دیا اور سول سروس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس عرصے میں وہ کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہ 1951 تک سیکریٹری دفاع رہے۔
غلام محمد کے سبکدوش ہونے کے بعد 1955 کے الیکشن ہوئے جس کے نتیجے میں چوہدری محمد علی پاکستان کے چوتھے وزیرِ اعظم بنے۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ چوہدری محمد علی کے وزیرِ اعظم مقرر ہونے کے بعد دو ماہ کے عرصے میں مغربی پاکستان کو ’ون یونٹ‘ بنانے کا کام مکمل ہوگیا۔
مارچ 1950 میں غلام محمد نے مغربی پاکستان کے صوبے کے قیام کے لیے ویسٹ پاکستان (اسٹیبلشمنٹ) آرڈر جاری کیا تھا۔ 1955 میں 30 ستمبر کو اسمبلی نے اسے قانون حیثیت دینے کے لیے بل منظور کر لیا اور اسی سال 14 اکتوبر کو مغربی پاکستان کا صوبہ باضابطہ طور پر معرضِ وجود میں آگیا۔
ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان میں شامل چاروں صوبوں کو ایک انتظامی یونٹ قرار دے دیا گیا تھا جس کی ملک کے دونوں حصوں میں مخالفت کی گئی۔
اس دوران مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی کی جانب سے آئین بنانے کے مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا۔ بالآخر 23 مارچ 1956 کو پاکستان کا پہلا آئین بن گیا جو وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی کا کارنامہ تھا۔ آئین کی منظوری کے بعد اسکندر مرزا صدر بن گئے اور چوہدری محمد علی وزیرِ اعظم رہے۔
جوڑ توڑ کا کھیل
ایوب خان کے معتمد اور سیکریٹری اطلاعات رہنے والے الطاف گوہر نے 'ایوب خان: فوجی راج کے پہلے دس سال' میں لکھا ہے کہ بدقسمتی سے ملک کی سیاست کے اسٹیج پر جوڑ توڑ کے ایک طویل ڈرامے کا آغاز ہوچکا تھا۔ حکومتوں کی تبدیلی روز کا معمول بن چکا تھا۔ اسکندر مرزا اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھ کر نہایت اطمینان سے ان اداروں کی شکست و ریخت کا تماشا دیکھ رہے تھے جو ملک کی تقسیم کے وقت وراثت میں ملے تھے۔ وہ ملک میں جمہوریت کے ڈرامے کے ڈراپ سین کے لیے مناسب وقت کے منتظر تھے۔‘‘
اس سیاسی جوڑ توڑ میں ایوب خان ایک اہم کردار ادا کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں ’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘ میں بھی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ سیاست دان انہیں بادشاہ گر سمجھنے لگے تھے۔
الطاف گوہر کے مطابق ایوب خان نے اپنے آپ کو محلاتی سازشوں سے الگ تھلگ رکھا لیکن جب بھی گورنر جنرل اور پارلیمنٹ میں ٹھن جاتی تو وہ گورنر جنرل کا ساتھ دیتے۔ جوں ہی کوئی سیاسی بحران برپا ہوتا ایوب خان کو طلب کیا جاتا۔
اندازے غلط ثابت ہوئے
ہمایوں مرزا لکھتے ہیں کہ ان کے والد اسکندر مرزا کی اس رائے سے سبھی آگاہ تھے کہ ملک کی تباہی کے ذمے دار سیاست دان تھے۔ ملک میں حقیقی اور ’ذمے دارانہ ‘ جمہوریت کے قیام کے لیے ’کنٹرولڈ‘ جمہوری نظام قائم کرنے کے خواہاں تھے۔
وہ لکھتے ہیں کہ اسکندر مرزا چاہتے تھے کہ مشرقی و مغربی پاکستان میں اختیارات مرکز کے مقرر کردہ گورنروں کے پاس ہونا چاہیے۔ جو وزیر اعظم اور ان کی وزرا کی ٹیم کا انتخاب کریں اور یہ ضروری نہیں کہ وزراء رکن اسمبلی بھی ہوں۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ اسکندر مرزا صاحب جوڑ توڑ کے بادشاہ تھے۔ گورنر جنرل یا صدر کے طور پر آئینی بندشوں اور پابندیوں میں مقید ہو کے رہنا ان کے لیے ناممکن تھا۔ جب ان کے دوست ڈاکٹر خان صاحب مغربی پاکستان کے وزیراعلیٰ بنے تو انہیں کسی سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں تھی۔ ان کی دستگیری کے لیے اسکندر مرزا صاحب نے ری پبلکن پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔
شہاب کے مطابق اسکندر مرزا اس پارٹی کی تشکیل کے کام میں اتنے منہمک تھے کہ وہ روزمرہ فائلیں بھی نہیں دیکھتے تھے۔
شہاب کے مطابق ریپبلکن پارٹی بننے کے بعد اسکندر مرزا کے ہاتھ میں جیسے جادو کی چھڑی آگئی۔ عہدہ سنبھالنے کے 13 ماہ بعد چوہدری محمد علی اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
اس کے بعد چھ سیاسی پارٹیوں کے اتحاد سے ملک فیروز خان نون نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا اور ان کی حکومت بھی نو ماہ ہی برقرار رہ سکی۔
شہاب نامہ کے مطابق ’’آئین نافذ ہونے کے بعد تین سال کے عرصے میں چار مرکزی حکومتیں اقتدار میں آئیں جن میں گیارہ سیاسی پارٹیوں نے حصہ لیا۔ ری پبلکن پارٹی ان سب میں شامل تھی۔ اس صورت حال کے رونما ہونے پر صدر اسکندر مرزا کے جوڑ توڑ کا بڑا عمل دخل تھا۔
قدرت اللہ شہاب کا کہنا ہے کہ اسکندر مرزا تین باتیں ثابت کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ نیا آئین قابل عمل نہیں، دوسرا یہ کہ ملک میں مستحکم حکومت چلانے کے قابل کوئی سیاست دان موجود نہیں اور تیسرا یہ کہ عملی سیاست میں کوئی ایسی جماعت نہیں جو مشرقی و مغربی پاکستان میں یکساں اعتماد حاصل کرکے کاروبارِ حکومت سنبھال سکے۔
الطاف گوہر کے مطابق اسکندر مرزا نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ایوب خان کو کہتے رہے کہ وہ انہیں ملازمت میں توسیع دینا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک ماہر منصوبہ ساز کے طور پر وہ یہ معاملہ کہہ کر ٹالتے رہے کہ وہ تو انہیں توسیع دینا چاہتے ہیں لیکن وزیر اعظم فیروز خان نون اس کے لیے تیار نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ادھر ایوب خان کی بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا اور مئی 1958 کے وسط تک ان کی بے تابی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ایوب خان نے وزیر اعظم فیروز خان نون کو راولپنڈی آنے کی دعوت دی اور گارڈ آف آنر اور اکیس توپوں کی سلامی بھی دی۔
جون 1958 میں بالآخر ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کردی گئی۔ ایوب خان کمانڈر ان چیف کے طور پر اپنی ملازمت کی دوسری چار سالہ مدت ختم کرنے والے تھے اور حکومت ان کی جگہ کسی اور جنرل کو مقرر کرسکتی تھی۔
الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ملازمت میں توسیع نے ایوب خان کو اسکندر مرزا کا ممنونِ احسان بنا دیا۔ ایوب خان کی وفاداری کے بارے میں یکسو ہونے کے بعد اسکندر مرزا پورے اعتماد سے اپنے کھیل کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے۔
اسکندر مرزا کا وہ منصوبہ کیا تھا۔ اس بارے میں قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ 1958 کا سال چڑھتے ہی اسکندر مرزا صاحب کی کرسی صدارت پر عام انتخابات کا خوف شمشیرِ برہنہ کی طرح لٹک گیا۔ انتخابات نومبر 1957 میں منعقد ہونا تھے لیکن کسی قدر ہیرا پھیری کے بعد 1958 تک ملتوی کردیے گئے۔ اس کے بعد مزید ہیرا پھیری سے 1959 تک کھسک گئے۔
انتخابات ہونے کی صورت میں اسکندر مرزا کو صدارت سے ہاتھ دھونا پڑتے کیوں کہ کوئی صدر دو میعادوں تک اس عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا تھا اور اگر انتخابات ہوتے تو میجر جنرل اسکندر مرزا کو صدارت سے دست بردار ہونا پڑتا۔ یا انہیں مستعفی ہوکر دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنا پڑتا۔
شہاب کے مطابق یہ دونوں صورتیں اسکندر مرزا کے لیے سوہانِ روح تھیں۔ اس لیے انہوں نے انتخابات سے جان چھڑانے کی ٹھان لی۔
انتخابات 1959 تک ملتوی کردیے گئے تھے لیکن جیسے جیسے ان کا وقت قریب آرہا تھا حکومت کی تبدیلی کی چہ میگوئیاں عروج پر تھیں۔
جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا تھا ملک میں سیاسی سرگرمیاں اور اسکندر مرزا کی بے چینی میں اضافہ ہورہا تھا۔
پہلا مارشل لا نافذ ہوتا ہے
بڑھتی ہوئی سیاسی ہنگامہ خیزی کو جواز بنا کر بالآخر 7 اکتوبر 1958 کو صدر اسکندر مرزا نے 1956 کے اسی آئین کو معطل کردیا جس کے تحفظ کا حلف انہوں نے اٹھایا تھا۔
ملک بھر میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کردیا گیا اور صدر اسکندر مرزا نے صدر ایوب خان کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔
ایوب خان 1954 ہی میں پاکستان کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ایک نقشہ ذہن میں تیار کرچکے تھے۔ جس کے بارے میں الطاف گوہر کا کہنا ہے کہ وہ کوئی سازش نہیں تھی بلکہ ملک حالات سے نمٹنے کا ایک مںصوبہ تھا جس سے ایوب خان نے اس وقت کی کابینہ کے ارکان کو بھی آگاہ کیا تھا۔ بہر صورت ایوب خان نے اب اسی منصوبے کے تحت کاروبارِ حکومت چلانا شروع کردیا۔
قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں کہ آئین کو منسوخ کرکے اسکندر مرزا نے اپنے ہاتھوں وہ درخت کاٹ کر پھینک دیا تھا جس کے سائے میں بیٹھ کر انہیں صدارت کی کرسی نصیب ہوئی تھی۔ فوج کے شعبۂ قانون کے ماہرین نے صاف طور پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ آئین کی منسوخی کے ساتھ ہی صدر کا عہدہ ختم ہوگیا اور اب حکومت کا واحد سربراہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہے۔ اس دوران اسکندر مرزا نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کے لیے بڑے ہاتھ پاؤں مارے۔
اسکندر مرزا کا خیال تھا کہ مارشل لا کے نفاذ سے ان کے اقتدار کو طول ملے گا لیکن ایوب خان انہیں مارشل لا کے نفاذ کے تین ہفتے کے اندر نہ صرف حکومت سے علیحدہ کیا بلکہ ملک سے بھی بے دخل کردیا۔
اس کے بعد ایوب خان کے 11 سالہ اقتدار کے دور کا آغاز ہوا جس کے بارے میں صفدر محمود کہتے ہیں کہ وہ دراصل پاکستان میں نوکر شاہی کی حکومت کا دور تھا۔
وہ لکھتے ہیں کہ تاریخی طور پر اس دور کا آغاز 1951 میں لیاقت علی خان کے بعد غلام محمد کے گورنر جنرل بننے سے ہوا۔ اس کے بعد سے ملک میں دو اہم طبقوں میں تصادم شروع ہوگیا۔ ایک وہ جو اقتدار پر قابض تھا یعنی سرکاری افسران اور دوسرا وہ طبقہ جو اقتدار حاصل کرنا چاہتا تھا یعنی سیاست دان۔