رسائی کے لنکس

ایران میں احتجاجی مظاہروں کی طوالت،تہران کے لئے نیا خطرہ؟


ایران میں احتجاج۔فائل فوٹو
ایران میں احتجاج۔فائل فوٹو

ویب ڈیسک۔ ایران میں چند ہفتے پہلے ایک کرد خاتون ،مہسا امینی کو ،حجاب کی پابندی کی خلاف ورزی پر ملک کی مورال پولیس یعنی ریاست کے وضح کردہ اخلاقی معیارات پر عملد درآمد کرانے والی پولیس نے، حراست میں لیا تھا ۔ایرانی حکام کے مطابق اخلاقی پولیس نے امینی کو اسلامی لباس کے کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا جس کے تین روز بعد وہ دل کا دورہ پڑنے سے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔

تین ہفتے قبل ،مہسا امینی کی تدفین کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا ،جو اب دنیا کے کئی ملکوں یں پھیل گیا ہے۔حکام نے ا احتجاج روکنے کے لئے ،انٹرنیٹ بند کر دیا،بلوؤں کو روکنے والی پولیس اور فوج تعینات کر دی اور طاقت کے استعمال سے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی۔

مظاہروں کےدوران ،ایرانی خواتین نے اپنے بال کاٹ کر احتجاج کیا ،جن کی تقلید میں ، بیرون ملک مشہور سیاست دان اور اداکارائیں بھی اب اپنے بال کاٹ رہی ہیں .

ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق روز بروز بڑھتے ہوئے مظاہرےاور عوام کے مزاج میں تبدیلی تہران کے لیے ایک ایسا نیا خطرہ ہے، جو 2009 کے بعد اس وقت سے نظر نہیں آیا تھا ،جب گرین موومنٹ میں لاکھوں لوگ سڑک پر آگئے تھے۔

بہرحال 2009اور اس وقت ہونے والے احتجاج میں واضح فرق موجود ہے اس وقت لاکھوں لوگ احتجاج کے لئے سڑکوں پر آگئے تھے۔موجودہ احتجاج میں اب تک بیک وقت اتنی بڑی تعداد نظر نہیں آئی ۔

2009 کا احتجاج بتد ریج کم ہونے سے پہلے بھی مہینوں تک جاری رہا تھا ، جو بالآخر 2011 میں اس وقت ختم ہو گیا، جب حکام نے عرب ا سپرنگ کے احتجاج کے درمیان اس کے رہنماؤں کو گرفتار کر لیا تھا۔

جبکہ موجودہ مظاہروں کو شروع ہوئے ابھی چار ہفتےمکمل نہیں ہوئے ہیں۔

یہ مظاہرے ، بظاہر عوام کا ایک بےساختہ ردّ عمل ہیں ،اور ان کی قیادت کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے—ان مظاہروں کو ، زیادہ تر متوسط اور اعلیٰ طبقوں کی شمولیت سے تقویت ملی ہے۔

80 ملین سے زیادہ آبادی پر مشتمل ملک ایران میں کیا ہو رہا ہے ،اس کی صحیح تصویر ،زمانہ امن بھی حاصل کرنا، مشکل تھی اور اب تو یہ اور بھی دشوار ہو گیا ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق، 17 ستمبر کو مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے حکام نے کم از کم 35 رپورٹرز اور فوٹوگرافروں کو حراست میں لیا ہے۔ زیادہ تر معلومات ان ویڈیو کلپس سے آتی ہیں جو سرگرم کارکن انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔

یہ مظاہرے ، بظاہر عوام کا ایک بےساختہ ردّ عمل ہیں ،اور ان کی قیادت کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے—ان مظاہروں کو ، زیادہ تر متوسط اور اعلیٰ طبقوں کی شرکت سے تقویت ملی ہے

گزشتہ سال سخت گیر صدر ابراہیم رئیسی کے انتخاب کے بعد سے، اخلاقیات پر عمل درآمد کے لئےدباؤمیں اضافہ ہوا ہے، ایسی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں جن میں عہدہ دار،خواتین کے ساتھ حجاب کی خلاف ورزی یاان کےلباس کی وجہ سے بدسلوکی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

بائیس سالہ نوجوان خاتون مہسا امینی کا جرم بھی یہی تھا ،جس کی اسے سزا دی گئی اور موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔

ایران کی حکومت کا اصرار ہے کہ امینی کے ساتھ بدسلوکی نہیں کی گئی، سرکاری ٹیلی ویژن نے ان کی پولیس اسٹیشن میں گرنے اور دیکھ بھال کرنے کی فوٹیج نشر کی۔ تاہم ان کی گرفتاری یا پولیس اسٹیشن لے جانے کی کوئی ویڈیو سامنے نہیں آئی ہے۔ جبکہ تہران نے پانچ سال قبل پولیس افسران کو باڈی کیمروں سے لیس کرنا شروع کیا تھا۔

سیکورٹی حکام نے معاملے کو دبانے کی کوشش میں امینی کی فوری تدفین کا انتظام کیا، جس کے دوران تہران سے ساڑھے چارسو کلومیٹر دور ، مہسا امینی کے آبائی قصبے ساقیز میں عوام اشتعال میں آگئے اور پرزور احتجاج شروع کر دیا۔

اس مظاہرے اور اس کے بعد ملک بھر میں ہونے والے احتجاج میں خواتین نے اپنے سروں کسے حجاب کو ہوا میں اچھال کر،قینچی سے اپنے بال کاٹ دئے اور بلند آواز میں چلاتے ہوئے آمر مردہ بادکے نعرے لگائے جو سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف اشارہ تھا۔

مظاہروں اور کریک ڈاؤن کی پور ی تفصیلات ابھی تک واضح نہیں ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے سرکاری اور ریاست سے منسلک میڈیا میں رپورٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ مظاہروں سے منسلک کم از کم 1,900 گرفتاریاں ہوئی ہیں۔اور کم از کم 50 شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں مظاہروں کی اطلاع ملی ہے۔

ایران احتجاج: کیا اس بارایرانی حکومت خطرے میں ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:25 0:00

سرکاری ٹیلی ویژن نے آخری بار خبر دی تھی کہ 24 ستمبر تک مظاہروں میں کم از کم 41 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد تقریباً دو ہفتوں میں ایران کی حکومت کی طرف سے کوئی تازہ اطلاع نہیں ہوئی ہے۔

اسی اثنا میں ، ایران نے سرحد پار ،عراق میں کرد علیحدگی پسندوں پر حملے شروع کر دیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ یہ مظاہرے ایک غیر ملکی سازش ہیں اور یہ ایران میں حجاب کی لازمی پابندی سے توجہ ہٹانے کے لیےشروع کئے گئے ہیں۔

لیکن آثار خطرے کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ایران اس سنیچر کا انتظار کر رہا ہے ، جب یونیورسٹی کے طلباء ، باقاعدہ کلاسز میں جا کر پڑھائی دوبارہ شروع کریں گے ۔ نیویارک میں قائم ایران میں انسانی حقوق کےمرکز کے مطابق، گزشتہ اتوار کو سیکورٹی فورسز نے تہران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی میں مظاہرہ کرنے والے طلباء پر آنسو گیس اور پیلٹ گن سے فائر کیا۔ اس یونیورسٹی اور دیگر کے طلباء نے باقی ہفتے ، آن لائن کلاسز لی تھیں۔

اگر پورے ایران میں کلاس رومز اور سڑکوں پر مظاہرے جاری رہے تو ایران کی سخت گیر حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ تاہم، ابھی تک، کوئی نشانی نہیں ہے کہ وہ واپس آ جائیں گے۔

اگر پورے ایران میں کلاس رومز اور سڑکوں پر مظاہرے جاری رہے تو ایران کی سخت گیر حکومت کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ تاہم، ابھی تک، ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ وہ پیچھے ہٹیں گے.

(اس رپورٹ میں شامل مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔)

XS
SM
MD
LG