واشنگٹن میں جنوبی ایشیائی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے اعلی عہدے داروں کی حالیہ ملاقاتیں اور واشنگٹن کی جانب سے سیکیورٹی تعاون، دونوں ملکوں کے تعلقات کو ازسر نو استوار کرنے میں اہم موڑ ثابت ہو سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی امریکی ہم منصب اینٹنی بلنکن اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے ملاقاتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کہتے ہیں کہ افغان جنگ کے دوران کشیدگی کے مقابلے میں اب یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ دونوں ممالک کی جانب سے باہمی دلچسپی کے شعبوں میں ممکنہ تعاون میں اضافہ دونوں کے مفاد میں ہے۔
اسی دوران امریکہ میں ماہرین کے ایک گروپ نے پاکستان اور امریکہ کے باہمی دلچسپی کے امور پر تعاون کے امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلقات قائم رکھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ تجزیاتی رپورٹ ہم خیال ماہرین پر مشتمل "پاکستان اسٹڈی گروپ" نے ، US Re-Engagement with Pakistan: Ideas for Reviving an Important Relationship کےعنوان سے جاری کی ہے۔
پاکستان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے کہ ایسے ملک کو جو دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والےمسلمان اکثریت والے ممالک میں سے ایک ہے، جنوبی، وسطی اور مغربی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے اور جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے، نظر انداز، الگ تھلگ" یا پیچھے نہیں چھوڑا جاسکتا "نہ ہی ایسا ہونا چاہئے۔
یہ رپورٹ ، جس کے مصنفین میں پاکستان کے لیے دو سابق امریکی سفیر، ریان کروکر اور کیمرون منٹر ،سابق معاون وزیر خارجہ، رابن رافیل اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی شامل ہیں، اس نکتے پر زور دیتی ہے کہ خطے سے دور جانا امریکی مفادات کے لیے سود مندنہیں ہو گا۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان معمول کے عملی تعلقات رکھنے کی دلیل دیتے ہوئے رپورٹ کے مصنفین کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ دونوں ملک بھارت، چین اور افغانستان کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں آب و ہوا میں تبدیلی، ٹیکنالوجی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کی وکالت کی گئی ہے۔
دہشت گردی کے حوالے سے مسائل پر اختلاف رائے کو نوٹ کرتے ہوئے، رپورٹ کے مصنفین نشاندہی کرتے ہیں کہ دونوں ملکوں نے اکثر القاعدہ اور داعش جیسے دہشت گرد گروپوں کے بارے میں انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون بھی کیا ہے۔
اس سلسلے میں رپور ٹ کے مصنفین کہتے ہیں کہ خطے سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد دہشت گردی کے خلاف امور میں پاکستان کے ساتھ تعاون کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کے لیے کشمیر ایک انتہائی اہم اور جذباتی مسئلہ ہے، اس میں تبدیلی کرنا ریڈلائن عبور کرنے کے مترادف ہے۔
رپورٹ کے مصنفین میں شامل "دی مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" تھنک ٹینک کے پاکستان اور افغانستان شعبے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کی دونوں ممالک کے تعلقات ، ماضی میں سلامتی کےامور پر مرکوز تعاون کے مقابلے میں اب "ایک نئی سمت میں جاتے دکھائی دے رہے ہیں"۔
پاکستان کے وزیر خارجہ اور آرمی چیف کی ملاقاتوں اور امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے وائن بام کہتے ہیں کہ حالیہ ملاقاتیں، پاکستان اور امریکہ کے باہمی تعلقات کو پاکستان کے "سابق وزیر اعظم عمران خان کے امریکی مداخلت کے بیانات سے پہنچنے والے نقصان" سے نکالنے اور "ازسرنو استوار" کرنے کی سفارتی کوششیں دکھائی دیتی ہیں۔ حالیہ تعاون اور ملاقاتیں تعلقات میں بہتری کی جانب اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔
اس ضمن میں وہ امریکہ کی جانب سے پاکستان میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے چھپن ملین ڈالر کی امداد اور پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی مرمت کے بڑے منصوبے کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہیں۔
وائن بام نے بتایا کہ سفارتی سطح پر واشنگٹن کا یہ کہنا قابل ذکر ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت دونوں جنوبی ایشیائی ملکوں سے اپنے دو طرفہ تعلقات کو الگ الگ دیکھتا ہے۔ جبکہ سکیوریٹی کی سطح پر پاکستانی فوج کے سربراہ کا دورہ ، پاکستان اور امریکہ کے درمیان انٹیلی جنس اور فوجی تعاون کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے شعبے میں وسعت بھی مستقبل کے تعلقات کے لیے اہم ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ عالمی تناظر میں، امریکہ ، پاکستان کے روس اور یوکرین کے ساتھ تعلقات پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔
دوسری طرف واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک "یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس" سے منسلک افغانستان اور جنوبی ایشیا کے ماہر ڈاکٹر اسفند یار میر کہتے ہیں کہ پاکستان کی افغان طالبان کی حمایت سے متعلق تلخ اختلافات کی یاد یں، امریکہ میں اب بھی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن موجودہ انتظامیہ پاکستان کے ساتھ تعاون کو فعال رکھنے کے حق میں ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیون، وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اور صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے دوسرے عہدے داروں کے حوالے سے کہا کہ ان کی سوچ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکہ کی کامیاب پالیسی کےلیے پاکستان سے کشیدگی کے بجائے انسداد دہشت گردی اور دوسرے شعبوں میں باہمی تعاون رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ مزید یہ کہ دیر پا کشیدگی امریکہ اور پاکستان دونوں کے مفادات کے خلاف ہوگی۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کی بھی صدر بائیڈن سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایک مختصر ملاقات ہو ئی تھی۔
حالیہ ملاقاتوں کے حوالے سے اسفند یار میر نے کہا کہ ایک غیر یقینی دور سے گزرنے کے بعد ان ملاقاتوں سے تعلقات کو نئے سرے سے سلامتی کے امور کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی قائم کرنے کا اشارہ ملتا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ امریکہ تقریباً دو عشرے قبل دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو جس طرح کی خطیر اقتصادی اور مالی امداد دیتا تھا اس کی توقع کرنا حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ہوگا۔
"اس وقت امریکہ میں چین ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جبکہ افغانستا ن ترجیحات کی فہرست میں کہیں نیچے دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان ہمسایہ ملک افغانستان کے حوالے سے تعاون کر سکتا ہے۔
اگرچہ حالیہ ملاقاتیں تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک اہم موقع ہیں ، پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی اقتصادی اہمیت کس طرح بڑھا سکتا ہے"۔