کراچی کے علاقے پہلوان گوٹھ کا رہائشی نبیل اشرف کورنگی صنعتی ایریا میں تولیہ فیکٹری میں کام کرنے کے ساتھ ایک ایپ کے تحت موٹرسائیکل پر سواریاں بھی اٹھاتے ہیں۔ دو نوکریاں کرنے پر نبیل کو مجموعی طور پر بمشکل 35 سے 40 ہزار روپے ماہانہ بچ پاتے ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے ایک ہفتے میں پے درپے 30،30 روپے کے اضافے نے اسے انجانے تفکرات اور خدشات میں مبتلا کردیا ہے۔
نبیل اور اس جیسے لاکھوں گھرانے پاکستان میں ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 35 ہزار سے بھی کم ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چھ میں سے چار خاندان ایسے ہیں جن کی ماہانہ آمدنی 35 سے 40 ہزار روپے ہے، جب کہ بہت سارے تو ایسے بھی ہیں جن کی آمدنی اس سے بھی کہیں کم ہے۔ اگر ایسے گھرانے اوسطا سو لیٹر پیٹرول بھی استعمال کریں تو نئی قیمتوں کے اطلاق کے بعد انہیں اپنی آمدن کا نصف سے بھی زیادہ یعنی 21 ہزار روپے صرف ایندھن کی مد میں خرچ کرنا پڑے گا، جب کہ کھانے پینے کے اخراجات، بچوں کی پڑھائی لکھائی، بجلی، گیس، فون کے بلز، گھروں کا کرایہ اور دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
ایک جانب حکومت جہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو ناگزیر قرار دے رہی ہے تو دوسری طرف کئی معاشی ماہرین اور تجزیہ کار بھی اسے مشکل اور سخت فیصلہ ہونے کے ساتھ معیشت کے لیے ضروری قرار دیتے نظر آتے ہیں۔ توانائی کے امور کے ایک ماہر فرحان محمود کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس فیصلے کا اثر مڈل کلاس، لوئر مڈل کلاس اور انتہائی غریب طبقات پر بہت زیادہ پڑے گا لیکن اگر یہ فیصلہ نہ کیا جاتا تو اس کے نتائج سے پوری معیشت متاثر ہوتی جو پہلے ہی شدید دھچکوں کا شکار ہے۔ اس لیے اس فیصلے کو حقیقت کے طور پر قبول کرنا ہوگا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے شدید متاثر ہونے والے انتہائی غریب طبقے کو براہ راست سبسڈی دینا ضروری ہے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے دو ہزار روپے ماہانہ دینے کا فیصلہ تو کیا گیا ہے لیکن یہ رقم انتہائی کم ہے اور اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے۔
"پاکستانیوں کو تیل کی مزید قیمتیں بڑھنے کےلیے تیار رہنا ہوگا"
فرحان محمود نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ عالمی مارکیٹ میں فی الحال تیل کی قیمتیں کم ہونے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آتی، کیونکہ روس اور یوکرین میں جنگ بندی کے کوئی آثار موجود نہیں، جب کہ حکومت بھی یہ واضح کرچکی ہے کہ وہ اب بھی عالمی منڈی سے زیادہ قیمت پر تیل خرید کر کم قیمت میں فروخت کررہی ہے اور پاکستان کے جاری کھاتوں کا خسارہ بڑھنے کے ساتھ بجٹ خسارہ بھی 2500 ارب روپے سے پہلے ہی تجاوز کرچکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس لیے آنے والے ہفتوں میں پاکستانیوں کو تیل کی مزید قیمتیں بڑھنے کےلیے بھی تیار رہنا چائیے۔
SEE ALSO: شہباز شریف کا ایک کروڑ 40 لاکھ خاندانوں کو 2 ہزار روپے ماہانہ سبسڈی دینے کا اعلانان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوجاتی ہیں تو بھی اس سے ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرتے وقت یہ شرط بھی قبول کی تھی کہ وہ محاصل میں اضافے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی عائد کرے گی جس سے رواں سال 610 ارب روپے کی آمدنی کی توقع تھی۔ مگر عمران حکومت کے بعد شہباز حکومت نے بھی اب تک لیوی عائد نہیں کی جب کہ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح بھی صفر ہے۔ تاہم، یہ اضافہ عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافے کے ساتھ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کی وجہ سے بھی ہے۔
کئی دیگر معاشی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ اس فیصلے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو کئی دیگر محاذوں پر بھی معاشی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی۔ ایک اور معاشی ماہر شاہ رُخ وانی کے مطابق ایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے عام پاکستانی یہ نہ سمجھے کہ ملک میں معاشی اصلاحات کی قیمت صرف وہی ادا کررہے ہیں جب کہ صنعتوں کو تحفظ اور سبسڈیز ملتی ہیں۔ اس لیے جاگیرداروں کو ٹیکس دینے پر قائل کرنا ہوگا۔ اسی طرح بعض دیگر ماہرین کے خیال میں ملک کے دفاع میں شامل غیر جنگی اخراجات میں کٹوتی اور کارپوریٹ سیکٹر کو دی جانے والی مراعات کو بھی ختم کرنا ضروری ہے۔
ماہرین اقوام متحدہ کے ادارے یواین ڈی پی کی گزشتہ سال کی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں صرف سال 2017-18 میں انتہائی غریب افراد کے معاشی تحفظ پر مجموعی طور پر 624 ارب روپے خرچ ہوئے جبکہ اسی سال اشرافیہ کو ملنے والی سبسڈیز کی مجموعی رقم 2 ہزار 660 ارب روپے تھی اوریہ رقم ملک کی مجموعی آمدن کا 7 فیصد تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
"اقتصادی حالت کو مزید بربادی اور دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے قیمتوں میں اضافہ ضروری تھا"
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے اضافے کی وجہ بیان کرتے ہوئے وزیر مملکت ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ یہ مشکل فیصلہ ملک کی اقتصادی حالت کو بربادی اور دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے ضروری تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس فیصلے سے آئندہ چند ماہ میں معیشت میں استحکام آئے گا اور اس کا بوجھ، بقول ان کے، حکومت اور ملک کے صاحب ثروت طبقات اٹھائیں گے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آخر یہ بوجھ ملک کے صاحب ثروت افراد کیسے اٹھائیں گے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غریب خاندانوں کی مدد کے لیے دو ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا گیا ہے،تاکہ وہ اپنی ضروریات کسی حد تک پوری کرسکیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک خسارے میں پیٹرولیم مصنوعات فروخت نہیں کرسکتا۔ قیمتوں میں حالیہ اضافے کے باوجود بھی عوام سے اس وقت بھی پوری قیمت خرید وصول نہیں کی جارہی۔ حکومتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ صرف پیٹرولیم ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں اجناس اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے، جب کہ پاکستان میں قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے۔ اگر مقامی طور پر قرضے لے کر عوام کو سبسڈی دی جاتی تو مہنگائی کا سیلاب آتا اور اگر مصنوعی طور پر قیمتیں کم رکھی جاتیں تو اس کے اثرات معیشت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتے۔