امریکی مفادات سے 'متصادم' ایس سی او تنظیم رُکن ملکوں کے لیے کتنی اہم ہے؟

شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ کا دو روزہ اجلاس بھارت کی میزبانی میں گوا میں جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ اجلاس خطے کے تمام ملکوں کے لیے اہم ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت اس کے ذریعے تعلقات میں بہتری کی راہیں تلاش کر سکتے ہیں۔

اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری ، روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف ، چینی وزیر خارجہ کن گینگ کے علاوہ تنظیم کے دیگر رکن ممالک کے اعلیٰ سفارت شرکت کررہے ہیں۔

بلاول بھٹو نے بھارت روانگی سے قبل کہا تھا کہ پاکستان ایس سی او کو نہایت اہمیت دینا ہے اور اس تنظیم کا رکن ہونے کے ناطے اپنی ذمے داریوں کو سنجیدگی سے ادا کرتا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر تنظیم کے رکن اور مبصر ممالک کے ا علیٰ سفارت کاروں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں علاقائی اور عالمی معاملات زیر ِبحث آنے کی توقع ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان باضابطہ طورپر کوئی ملاقات طے نہیں ہے۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان نے گوا میں ہونے والے کثیر الملکی فورم کے موقع پر بھارت سے کسی قسم کی دو طرفہ یا سائیڈ لائن ملاقات کی خواہش نہیں کی ہے۔

ایس سی او وزرائے خارجہ کا اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے جب یوکرین جنگ کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اور روس کے درمیان تناؤ برقرار ہے۔

دوسری جانب امر یکہ اور چین کی درمیان اسٹرٹیجک مسابقت بڑھتی جارہی ہے۔ اس لیے یہ اجلاس مغرب اور خطے کے دیگر ممالک کے علاوہ بین الاقوامی امور کے ماہرین کی خاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔


شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد 2001 میں رکھی گئی تھی اور اب اس کے رکن ممالک کی تعداد آٹھ تک پہنچ گئی ہے جن میں بھارت، چین، روس، پاکستان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔

ان ممالک کی مجموعی آبادی ا ور مجموعی رقبے کے لحاظ سے اس تنظیم کا شمار دنیا کی بڑی بین الحکومتی تنطیموں میں ہوتا ہے۔ لیکن بعض رکن ممالک کے باہمی اختلافات کی وجہ سے اس تنظیم کو کئی طرح کے چیلنجز بھی درپیش ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ایس سی او اس وقت تک ایک مؤثر تنظیم اور باہمی طور پر مربوط تنطیم نہیں بن سکتی جب تک اس کے رکن ممالک کے باہمی سیاسی اختلافات موجود رہیں گے۔

تنظیم میں روس اور چین اپنی سیاسی طاقت اور باہمی قریبی تعلقات کی وجہ سے نمایاں ہیں لیکن دوسری جانب بھارت کے ایک طرف چین اور دوسری جانب پاکستان کے ساتھ بعض سیاسی اور جغرافیائی تنازعات ہیں۔

'یوکرین جنگ کے تناظر میں ایس سی او اجلاس اہم ہے'

کراچی یونیورسٹی میں شعبہ بین الااقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کہتے ہیں کہ ایس سی او کے اجلاس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے جب یوکرین جنگ جاری ہے اور اس کانفرنس کا بھارت میں ہونا بھی اہم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ کانفرنس اس بات کا عندیہ ہے کہ رُکن ممالک ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ ایس سی او کے مقاصد،امریکہ کے اہداف سے متصادم ہیں اور یہ صورتِ حال بھارت کے لیے پیچیدہ ہے۔ کیوں کہ بھارت ایک طرف امریکہ کا اسٹرٹیجک شراکت دار ہے جب کہ دوسری جانب وہ ایس سی او کا رُکن بھی ہے۔

نعیم احمد کہتے ہیں کہ اگرچہ تنطیم کے بنیادی مقاصد میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی روک تھام ہے۔ لیکن اس کے ذریعے رُکن ممالک کے درمیان تعاون کی بھی راہیں کھلتی ہیں۔

ا ن کا کہنا ہے کہ تنظیم کے ابتدائی رکن ممالک کا مقصد وسط ایشیا اور خطے میں امریکہ کے اثر وسوخ کا مقابلہ کرنے بھی شامل تھا۔

دوسری طرف بھارت امریکہ کے قریب ہے جب کہ چین اور بھارت کے باہمی تعلقات میں سرد مہری پائی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ بھارت کے لیے ایک چیلنج ہوگا کہ وہ کس طرح ایس سی او کا ایک فعال رکن ہوتے ہوئے امریکہ کے تعلقات میں توازن رکھ سکتا ہے۔

SEE ALSO: بلاول بھٹو کی ایس سی او اجلاس میں شرکت:'ساری توجہ پاکستان اور بھارت پر ہو گی'


فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو کا وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت جانا پاکستان کا ایس سی او کے چارٹر پر عمل کے عزم اور اس کی اہمیت کی عکاسی کرتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں فیصل کریم کنڈی کا کہنا تھا کہ خطے کی ترقی اور استحکام کے فورم پر پاکستان کی شرکت ضروری ہے اور بلاول بھٹو ایس سی او اجلاس میں ملک کے مفادات اور خطے کے حوالے سے اہداف کا احاطہ کریں گے۔

ایس سی او کیا ایک فعال تنطیم بن سکتی ہے؟

یادر ہے کہ جنو بی ایشیائی ممالک کی تنظیم سارک بھارت اور پاکستان کے باہمی تنازعات کی وجہ سے زیادہ مؤثر نہیں بن پائی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ جنوبی ایشیا کے دو حریف ممالک ایس سی او کے بھی رکن ہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہا اس بات کا امکان کم ہے کہ ان کے باہمی اختلافات ایس سی او پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

تجزیہ کار نعیم احمدکہتے ہیں کہ سارک اور ایس سی او کے مقاصد اور اہداف ایک دوسرے سے مختلف ہیں جب کہ اس تنطیم میں سارک کی نسبت بھارت اور پاکستان کے مقابلے میں چین اور روس کا کردار غالب ہے۔

سارک کے حوالے سے فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک کی تنظیم کو فعال دیکھنا چاہتا تھا اور اس کی غیر فعالیت میں اسلام آباد کا کوئی کردار نہیں ہے۔


نعیم احمد کہتے ہیں کہ سوائے بھارت اور پاکستان کےایس سی او کے دیگر رکن ممالک کے درمیان معمول کے تعلقات ہیں۔

اُن کے بقول یہ بھی ممکن ہے کہ مستقبل میں چین اس پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کا کردا ر ادا کرے ۔

دوسری جانب روس بھارت کے قریب ہے اس لیے روس بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔

خیال رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام 2001 میں عمل میں لایا گیا تھا جس میں ابتداً روس، چین، کرغزستان، ازبکستان، قازقستان اور تاجکستان شامل تھے۔ بعدازاں 2017 میں پاکستان اور بھارت کو بھی اس کی رُکنیت مل گئی تھی۔