چار بچوں کی ماں سیما علی کا تعلق کراچی کے علاقہ رنچھوڑ لائن سے ہے۔ کرونا کی وجہ سے شوہر سات ماہ بے روزگار رہنے کے بعد حال ہی میں ایک کیٹرنگ کمپنی میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
سیما اور ان کی بڑی بیٹی گارڈن کے علاقے میں گھروں میں کام کرنے جاتی ہیں۔ جس سے کسی حد تک گزر بسر ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصے قبل تک ان کے حالات نسبتاً بہتر تھے، گھر کا کرایہ، راشن پانی اور پھر تعلیم کے اخراجات کسی حد تک نکل آتے تھے۔ لیکن حالیہ عرصے میں کرونا اور پھر مہنگائی کی شدید لہر نے ان کے گھر کا بجٹ بری طرح متاثر کر دیا ہے۔
سیما کا کہنا ہے کہ اتوار کو اُنہوں نے مخیر حضرات کی جانب سے لگائے گئے سستے پھل اور سبزیوں کے اسٹالز سے کئی ماہ بعد خریداری کی۔ کیوں کہ عام بازاروں میں تو ان کے دام آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔
گزشتہ برس جولائی اور اگست میں پاکستان میں افراطِ زر کی شرح آٹھ 8 اعشاریہ 4 فی صد پر مستحکم رہنے کے بعد ستمبر، اکتوبر اور نومبر کی طرح دسمبر میں بھی مسلسل بڑھتے ہوئے 20 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ملک میں اس وقت مہنگائی کی سطح ایک بار پھر 12 اعشاریہ 3 فی صد پر جا پہنچی ہے اور گزشتہ دو ماہ سے یہ شرح 10 فی صد سے بھی بلند ہے۔ اسی طرح مہنگائی کی اوسط رفتار رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں 9 اعشاریہ 81 فی صد رہی جب کہ مالی سال 2020 کے پہلے چھ ماہ میں یہ شرح 9 اعشاریہ 63 فی صد تھی۔
ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مہنگائی کے سیلاب نے لوگوں کی جیبوں پر بھاری بوجھ ڈالا ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر میں ملک میں ایندھن کی قیمتیں، بجلی، ٹرانسپورٹ، گھروں کا کرایہ اور بعض غذائی اشیا کی قیمتیں بڑھنے کی شرح زیادہ رہی۔ جب کہ دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں یہ شرح کہیں زیادہ ریکارڈ کی گئی۔
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی موجودہ لہر کا سب سے زیادہ شکار بڑے شہروں میں مقیم وہ نچلا متوسط طبقہ ہو رہا ہے جس کی آمدنی کے ذرائع انتہائی قلیل ہیں۔ لیکن ان کے اخراجات شہروں میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے کہیں زیادہ ہیں۔ ان میں سے مہنگی خوراک، ٹرانسپورٹ، بجلی کے بلز اور گھروں کے کرائے اہم ہیں جس میں آمدنی کا بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کراچی میں مقیم ماہر معیشت فرحان محمود کا کہنا ہے کہ مہنگائی کے اثرات غریب طبقے سے کہیں زیادہ ایسے طبقے پر پڑتے ہیں جسے اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھتے ہوئے روز مرہ کی زندگی گزارنی ہے۔
فرحان محمود کے مطابق مہنگائی کی شرح میں فوری کمی کا فی الحال کوئی امکان نہیں۔
اُن کے بقول اس کی کئی وجوہات میں سے ایک ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ پیٹرول کی قیمتیں ہیں اور اس کے پس منظر میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں، شپنگ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور پھر پاکستان کی اپنی کرنسی کی تاریخی گراوٹ ہے۔
اُن کے بقول مئی سے لے کر اب تک پاکستانی کرنسی کی شرح 18 فی صد تک گر چکی ہے جب کہ تین برسوں میں اس میں 30 فی صد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان تمام عوامل نے تیل کی قیمتیں اور پھر اس سے بجلی اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں کے ساتھ غذائی اشیا کی قیمتوں میں میں بھی اضافہ کیا ہے۔
کیا مہنگائی کی موجودہ لہر تھمنے کا کوئی امکان ہے؟
فرحان محمود کے مطابق روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ تھمنے کا امکان اس وقت پیدا ہو گا جب امریکی ڈالرز کا اِن فلو بڑھے گا اور وہ تب ہی بڑھ سکتا ہے جب آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو قرضے کی نئی قسط کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر جلد مل جائیں۔
اُن کے بقول اگر ایسا ہو جائے جس کے امکانات حکومت کی جانب سے حال ہی میں قومی اسمبلی میں متعارف کرائے گئے بل کی منظوری کی شکل میں روشن ہو جائیں گے تو دوسری لینڈنگ ایجنسیز سے بھی پیسے ملنے میں آسانی کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ لہذٰا ڈالر کی قیمت کم ہو گی۔
اُن کے بقول اسی طرح آنے والے دنوں میں عالمی مارکیٹ میں تیل اور مختلف خام مال کی اشیا میں بتدریج کمی آ رہی ہے جس کے سبب ملک میں آنے والے دنوں میں کسی حد تک مہنگائی کی شرح مستحکم رہنے کی توقع ہے۔
لیکن بعض مبصرین کے خیال میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بہتری کے لیے امریکی ڈالر کی غیر قانونی اسمگلنگ کی روک تھام، بینکنگ چینلز کے ذریعے لین دین کو بڑھانے، افغانستان سے تجارت میں اصلاحات اور سب سے بڑھ کر درآمدات کے مقابلے میں برآمدات کو تیزی سے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے تجارتی خسارہ میں کمی اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوں۔
'منی بجٹ سے مہنگائی بڑھنے کا کوئی اندیشہ نہیں، غذائی اشیا کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئیں'
ادھر دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں حال ہی میں متعارف کرائے گئے منی بجٹ میں مختلف اشیائے ضروریہ پر ٹیکس بڑھانے پر شدید تنقید کر رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے مہنگائی کا ایک اور نیا طوفان آئے گا۔ جس کے تحت ریسٹورینٹس، بیکری آئٹمز، فارما سیوٹیکل، مٹھائی، پیک دیسی گھی، بچوں کا دودھ، مصالحے، سونے چاندی کے زیورات، بڑی گاڑیاں، موبائل فونز مزید مہنگے ہو جائیں گے۔
البتہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ منی بجٹ میں غریب آدمی کے استعمال کی اشیا پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ ایسی اشیا پر ٹیکس نہیں بڑھایا گیا۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں دسمبر میں جلد خراب ہونے والی بعض غذائی اشیا یعنی ٹماٹر کی قیمتوں میں 50 فی صد، سبزیوں کی قیمت میں 26 فی صد، آلو 19 فی صد، چکن اور پیاز کی قیمت میں 18 فی صد، چینی اور انڈوں کی قیمت میں کمی ہوئی ہے۔