رسائی کے لنکس

شرحِ سود میں اضافہ: عام آدمی کے معاشی حالات پر کیا اثر پڑے گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے مرکزی بینک نے منگل کو ملک میں شرح سود مزید 100 بیسس پوائنٹس بڑھا کر نو اعشاریہ سات پانچ فی صد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق اس فیصلے کا مقصد ملک میں جاری مہنگائی کے دباؤ سے نمٹنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ نمو پائیدار رہے۔

اس سے قبل نومبر میں بھی مرکزی بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فی صد کا اضافہ کیا تھا جو کئی ماہرین معیشت کے بقول ایک غیر متوقع فیصلہ تھا۔

انویسٹمنٹ کمپنی 'بی ایم اے' کیپٹل میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعد ہاشمی کہتے ہیں شرح سود بڑھانا اگرچہ کوئی ایسا قدم نہیں جو بہت مقبول ہو لیکن پاکستان کی معیشت کی پائیداریت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسا کرنا ناگزیر تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح زیادہ ہے اور تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ شرح سود بڑھانے سے ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ شرح سود کے تعین میں حقیقی، بیرونی اور مالیاتی شعبوں کے اہم رجحانات، امکانات اور اس کے نتیجے میں مالیاتی حالات اور مہنگائی کے امکانات کو مدِنظر رکھنا ہوتا ہے۔

سعد ہاشمی کے خیال میں شرح سود بڑھانے سے جہاں مہنگائی میں کمی واقع ہوتی ہے تو دوسری جانب اس کا نقصان بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں سے قرض لینے والوں کو ہوتا ہے۔ جو بھاری سود پر بینکوں سے قرض لینے کے بجائے اپنا سرمایہ بینکوں میں ہی رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ماہر معیشت اور نجی یونیورسٹی میں شعبہ معاشیات کے پروفیسر ڈاکٹر صابر جمیل کے خیال میں شرح سود میں اضافے اور سرمایہ کاری میں کمی سے معاشی سست روی پیدا ہوگی، جو اس وقت انتہائی ضروری ہے اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔

'شرح سود کا تعلق مہنگائی سے براہِ راست نظر نہیں آتا'

انہوں نے مرکزی بینک کے شرح سود بڑھانے کے فیصلے نامناسب قرار دیا اور کہا کہ شرح سود بڑھانے سے مہنگائی کو قابو میں لانے میں کوئی خاص مدد نہیں ملے گی کیوں کہ ان کے بقول پاکستان کی معیشت زیادہ تر نقد رقوم پر چلتی ہے۔ خاص طور پر غذائی اشیا کا لین دین بھی نقد رقوم کی شکل میں ہوتا ہے ناکہ بینکنگ لین دین سے۔ اس لیے شرح سود کا تعلق مہنگائی سے براہِ راست نظر نہیں آتا۔

ان کے خیال میں اس وقت ملک کے جاری کھاتوں کے خسارے کم کرنے کے لیے شرح سود بڑھانے کے بجائے درآمدات پر قابو پانے، ٹیکس استثنا ختم کرنے اور غیر ضروری اشیا کی درآمدات پر ڈیوٹی بڑھانے کی ضرورت تھی۔

واضح رہے کہ مرکزی بینک نے اپنے اعلامیے میں کہا ہے کہ 19 نومبر 2021 کو پچھلے اجلاس کے بعد سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کے اشاریے تو مضبوط رہے لیکن مہنگائی اور تجارتی خسارے میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ اجناس کی بلند عالمی قیمتیں اور ملکی معاشی نمو ہے۔

پاکستان میں مہنگائی: کیا قوتِ خرید میں بھی اضافہ ہوا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:13 0:00

ادارۂ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق نومبر میں عمومی مہنگائی کی شرح بڑھ کر گیارہ اعشاریہ پانچ فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جس سے ملکی طلب میں نمو یعنی ڈیمانڈ کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایک جانب ملک میں بجلی کی پیداوار، سیمنٹ کی ترسیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت، درآمدات اور ٹیکس محاصل بڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی نمو ٹھوس ہے۔ اسی طرح بہتر بیجوں کی دستیابی اور گندم کے زیرِ کاشت رقبے میں متوقع اضافے کی مدد سے زراعت کا منظرنامہ بدستور مضبوط ہے۔

ماہرین کے بقول خدمات پر سیلز ٹیکس میں بھرپور نمو سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سیکٹر بھی اچھی طرح بحال ہورہا ہے۔ ان اعشاریوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مالی سال میں ملکی ترقی کی نمو چار سے پانچ فی صد کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔

سعد ہاشمی کہتے ہیں پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح زیادہ ہے اور تاریخی طور پر دیکھا گیا ہے کہ شرح سود بڑھانے سے ملک میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

ان کے بقول، "سود کی شرح بڑھنے سے ملک میں معاشی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔ اور وہ سرمایہ دار جو اپنا سرمایہ کسی منصوبے میں لگارہے ہوتے ہیں وہ بھاری سود پر بینکوں سے قرض لینے کے بجائے اپنا سرمایہ محفوظ کر لیتے ہیں۔ ایسے میں معاشی سرگرمیوں کا زور ٹوٹ جاتا ہے یعنی دوسرے الفاظ میں طلب میں کمی واقع ہوتی ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ طلب میں کمی سے وہ اشیا جو بیرونِ ملک سے درآمد کی جاتی ہیں، ان پر بھاری زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے اس میں کسی حد تک کمی واقع ہوتی ہے اور یوں حکومت کو اپنا تجارتی خسارہ کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG