خیبر پختونخوا میں حال ہی میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جمعیت علماء اسلام (ف) سٹی اور تحصیل کونسل کی 66 میں سے 21 نشستوں پر کامیابی کے ساتھ سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ اس کی یہ کامیابی کئی حلقوں کے لیے حیرت کا باعث ہے اور یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ جے یو آئی نے اتنی نشستیں کیسے حاصل کیں۔
اب تک کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق جے یو آئی (ٖف) کے امیدواروں نے جنوبی اضلاع کے علاوہ پشاور، چارسدہ اور مردان میں بھی تحصیل میئر کی نشستیں اپنے نام کرلی ہیں۔
حالیہ چند انتخابات کے مقابلے میں جہاں اس بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی (ف) کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے، وہیں سیاسی مخالفین جماعت کی اس کامیابی کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مبینہ تعلقات سے جوڑ رہے ہیں۔
کیا جے یو آئی کی کامیابی طالبان کی مرہونِ منت ہے؟
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے سینئر رہنما زاہد خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں آنے والی حالیہ تبدیلیوں کے پس منظر میں ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کا جمعیت علماء اسلام کے لیے رویہ نرم ہو گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ سے گرم جوشی سے ملنا، اسے سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنا اور اسلام آباد میں افغانستان کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ اجلاس کا انعقاد ایسے عوامل ہیں جس نے جے یو آئی (ف) کے لیے خیبر پختونخوا میں سازگار ماحول فراہم کیا۔
ان کے بقول افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد جے یو آئی (ف) ہی وہاں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو صحیح معنوں میں تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
زاہد خان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے حالات کا خیبر پختونخوا کی سیاست پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ ان کے بقول افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سال 2002 کے عام انتخابات میں چھ پارٹیوں پر مشتمل مذہبی سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو نہ صرف صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں کامیابی حاصل ہوئی تھی بلکہ وفاق میں مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن لیڈر منتخب ہوئے تھے۔
البتہ جے یو آئی (ف) کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات جلیل جان عوامی نیشنل پارٹی کے مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کے بقول حالیہ مہنگائی اور خراب گورننس کے باعث عوام کا تحریکِ انصاف سے اعتماد اٹھ گیا تھا جس کا فائدہ جے یو آئی کو پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ صوبے کی دوسری بڑی جماعت اور اسمبلی میں اپوزیشن ہونے کے باعث عوام کے پاس متبادل انتخاب جے یو آئی ہی تھی۔ اس لیے عوام نے اعتماد کرتے ہوئے انہیں ووٹ دیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جلیل جان کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) کا 2018 کے عام انتخابات کے بعد واحد نعرہ یہی تھا کہ ان کا ووٹ چوری ہوا ہے۔ ان کے بقول جو لوگ جے یو آئی کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی بات کرتے ہیں، یہ ان کی خام خیالی ہے کیوں کہ ان کے بقول جے یو آئی کو اب بھی اتنے ووٹ نہیں ملے جتنی اسے امید تھی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جے یو آئی کے مخالفین نے اپنی ناکامی کا الزام کسی نہ کسی کے سر پر تو ڈالنا ہی تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی آئندہ ہونے والے صوبائی اور قومی انتخابات کے نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے محقق اور پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ ابلاغِ عامہ سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر سید عرفان اشرف کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی کی بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی ان کے لیے حیران کن نہیں ہے کیوں کہ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلی کا مضافات پر اثر ضرور ہوتا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کے تمام مدرسوں نے افغانستان سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا کا بھر پور انداز میں جشن منایا جسے صوبے کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ہونے کے ناتے مولانا نے کیش کرایا۔
'بلدیاتی انتخابات میں شکست وقتی حادثہ ہے'
خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست پر خود وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی منگل کو ردِعمل دیا تھا اور غلط امیدواروں کے چناؤ کو شکست کی وجہ قرار دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی نے غلطیاں کیں اور اس کا خمیازہ بھگتا۔
البتہ وزیرِ اعظم نے پی ٹی آئی کارکنوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ خود اگلے مرحلے میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی نگرانی کریں گے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف اب بھی صوبے کی سب سے بڑی جماعت ہے اور وہ اگلے مرحلے میں بھر پور کم بیک کرے گی۔ ان کے بقول بلدیاتی انتخابات میں شکست ایک وقتی حادثہ ہے۔
اگلے مرحلے میں کون آگے ہو گا؟
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں اے این پی کی کارکردگی سے متعلق زاہد خان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت سے کچھ سیاسی غلطیاں بھی ہوئی ہیں اور اس بارے میں پارٹی کے صوبائی صدر نے آئندہ کے لائحۂ عمل کے لیے پارٹی اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔
SEE ALSO: بلدیاتی انتخابات میں ناکامی: 'تحریک انصاف کارکنوں کے مزاج کو سمجھنے میں ناکام رہی'زاہد خان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا بھی خوب استعمال کیا اور کئی حلقوں میں مسلم لیگ (ن) نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔
ان کے بقول صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے اگلے مرحلے میں اے این پی کا اصل مقابلہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی سے ہو گا۔
البتہ جلیل جان سمجھتے ہیں کہ ان کی جماعت گزشتہ چار برسوں سے صوبے میں عوام کی ہر سطح پر نمائندگی کرتی چلی آ رہی ہے جس کا صلہ عوام نے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں جیت کی صورت میں دیا۔
جلیل جان نے عوامی نیشنل پارٹی کے اس مؤقف کو بھی رد کیا کہ اگلے مرحلے میں ان کی پارٹی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ان کی پارٹی کا ہزارہ ڈویژن میں اچھا ووٹ بینک ہے اور جس طرح صوبائی دارالحکومت پشاور میں سوئپ کیا ہے اسی طرح اگلے مرحلے میں بھی کامیابی حاصل کریں گے۔
جے یو آئی (ف) کے سیکریٹری اطلاعات نے حکومتی جماعت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ صوبۂ خیبر پختونخوا اور ملک کی سطح پر مولانا فضل الرحمٰن کی سیاست کو ختم کرنے کے دعوے داروں کو دیکھنا چاہیے کہ کیا مولانا کی سیاست ختم ہوئی ہے یا ایک مرتبہ پھر ابھری ہے؟
تحریک انصاف کو عوام نے کیوں مسترد کیا؟
پی ٹی آئی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کا موازنہ کرتے ہوئے ڈاکٹر عرفان اشرف کا کہنا تھا کہ دونوں کے درمیان بہت کچھ مشترک ہے۔ ان کے بقول دونوں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں ہیں اور مذہبی سیاست پر یقین رکھتی ہیں۔ البتہ دونوں سیاسی جماعتوں میں شخصیات کی حد تک فرق ہے اور قائدین ایک دوسرے کو پسند نہیں کرتے۔
SEE ALSO: خیبزپختونخوا: دہشت گردی کے واقعات میں حساس ادارے کے اہل کار سمیت چھ افراد ہلاکڈاکٹر عرفان اشرف کے بقول جمعیت علماء اسلام (ف) کا ڈھانچہ مدرسہ کلچر کے باعث بہت مضبوط ہے۔ یہی وہ عمل ہے جو اسے پی ٹی آئی سے ممتاز کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مدارس سے جے یو آئی کو بہت زیادہ سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔
پشاور یونیورسٹی سے منسلک ڈاکٹر عرفان اشرف کا مزید کہنا تھا کہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، غلط ٹکٹوں کی تقسیم اور خراب طرزِ حکمرانی کے باعث بھی لوگ حکمران جماعت سے خوش نہیں تھے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہی وہ بنیادی نکات تھے جس کے باعث نہ صرف عوام بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی بھی وہ سپورٹ پی ٹی آئی کو نہ ملی جو بظاہر 2018 کے الیکشن میں نظر آئی تھی۔
ڈاکٹر عرفان کے بقول جے یو آئی (ف) کی کامیابی کی ایک اور وجہ صوبے میں دیگر ترقی پسند سوچ والی جماعتوں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، آفتاب شیر پاؤ کی قومی وطن پارٹی اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبے میں کوئی خاص کارکردگی نہ دکھانا بھی ہے جس نے ان کے بقول مذہبی جماعتوں کی کامیابی کی راہ ہموار کی۔
پروفیسر عرفان اشرف کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں سیاسی جماعتوں پر دہشت گردوں کے حملے دوبارہ شروع ہو گئے ہیں جس کی تازہ مثال باجوڑ اور ڈی آئی خان میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنوں اور اہلکاروں پر حملے ہیں۔
انہوں نے نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر سیاسی جماعتوں پر ایسے حملے روکنے کے لیے کوئی مناسب حکمتِ عملی نہ ترتیب دی گئی تو آئندہ آنے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات مذہبی جماعتوں کے لیے مزید کھلا ماحول فراہم کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔