پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے پیر کو قوم سے خطاب میں پیٹرول کی فی لٹر قیمت میں 10روپے جب کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت میں پانچ روپےکمی کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ تک یہ سبسڈی برقرار رکھنا حکومت کے لیے آسان نہیں ہو گا۔
وزیرِ اعظم پاکستان کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس، یوکرین تنازع کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
حکومت کی جانب سےپیر کو رات گئے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود وزیر ِاعظم نے نہ صرف آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے 10 روپے اضافے کی سمری مسترد کی، بلکہ محدود مالی وسائل کے باوجود اس کے ساتھ ہی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں10 روپے تک مزید کمی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے قبل بھی وہ صارفین پر اس کا بوجھ کم کرنے کے لیے 70 ارب روپے ماہانہ خرچ کر رہی تھی۔
لیکن اس فیصلے پر حیرانی صرف شہریوں ہی کو نہیں بلکہ معاشی ماہرین کو بھی ہو رہی ہے اور وہ بھی اس فیصلے کے پیچھے کوئی معاشی منطق تلاش کرتے نظر آ رہے ہیں۔
"عوام کو 240 ارب کا ریلیف مگر آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ملنے والا قرض بند بھی ہو سکتا ہے"
معاشی ماہر اور تجزیہ کار فہد رؤف کے خیال میں پیٹرول کی قیمت میں 10 روپے فی لٹر کمی کرنے سے حکومتی محصولات میں 10 ارب روپے ماہانہ کمی ہو گی۔ اسی طرح ڈیزل کی قیمتوں میں بھی 10 روپے کمی سے آٹھ ارب روپے ماہانہ کمی ہو گی۔ بجلی کی قیمت پانچ روپے فی یونٹ کم کرنے سے حکومت کو 42 ارب روپے ماہانہ کے خسارے کا سامناہو گا۔
یوں کُل ملا کر یہ کوئی 60 ارب روپے ماہانہ کی رقم بنتی ہے اور چار ماہ میں یہ رقم 240 ارب روپے کے ارد گرد پہنچتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ریلیف سے جہاں پاکستانی روپے پر دباؤ مزید بڑھے گا وہیں آئی ایم ایف کا پروگرام بھی ڈی ریل ہوسکتا ہے جس کے تحت پاکستان کو ابھی ایک ارب ڈالرز مزید ملنا ہے۔
"فیصلہ معاشی سے زیادہ سیاسی نوعیت کا دکھائی دیتا ہے"
ایک اور معاشی ماہر اور سندھ حکومت کے سابق معاشی مشیر اسد علی شاہ کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام کو سمجھنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے سیاست اور معیشت کئی لحاظ سے ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں۔
ان کے خیال میں اس فیصلے میں معاشی پہلو کے بجائے سیاسی مصلحت زیادہ نظر آتی ہے۔ کیونکہ اس وقت حکومت کو مہنگائی کی وجہ سے کافی سخت نکتہ چینی کا سامنا ہے۔ اور حکومت نے ایسے کئی وعدے کررکھے تھے جنہیں پورا کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ معاشی حالات کی کچھ اندرونی وجوہات کے ساتھ بیرونی وجوہات بھی تھیں جو حکومت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ لیکن اس کے اثرات سے پاکستان بہرحال متاثر ہو رہا ہے۔
SEE ALSO: وزیرِ اعظم کا اتحادیوں کو منانے کا مشن اور ریلیف پیکج، کیا حکومت کے لیے خطرہ ٹل گیا؟
اسد علی شاہ کے مطابق اس طرح کے معاشی فیصلوں کے مثبت اور منفی دونوں کے قسم کے اثرات ہوتے ہیں۔ مثبت یہ ہے کہ لوگ جو پہلے ہی بلند قیمتوں یعنی افراط زر اور آمدنی کم ہونے سے پریشان ہیں، انہیں ظاہر ہے کہ اس سے ریلیف تو ملے گا۔
لیکن اسد علی شاہ کے مطابق دوسری جانب اس فیصلے کا یہ بھی پہلو ہے کہ حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ لوگوں کو ایسا ریلیف دے سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کا آج کا نہیں بلکہ گزشتہ 30، 40 سال سے مسئلہ یہ رہا ہے کہ حکومت کے اخراجات اس کی آمدنی سے کہیں زیادہ رہتے ہیں۔ اس طرح تقریبًاً آٹھ فی صد بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے حکومت کو ملکی بینکوں اور بیرونی دنیا سے ادھار لینا پڑتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ہماری معیشت کا بڑی حد تک دارو مدار درآمدات پر ہے تو اس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ پیدا ہوتا ہے۔
دوسری جانب حکومت کی جانب سے ملکی بینکوں سے بھاری قرضہ لینے سے نجی شعبے کے لیے کچھ نہیں بچتا اور یوں کاروبار کرنے کے لیے آسان شرائط پر قرضے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار کرنے کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔
"ریلیف پیکج آئی ایم ایف پروگرام سے براہ راست متصادم"
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورتَ حال میں حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب دیکھنا پڑتا ہے۔ اور یہ 22 واں آئی ایم ایف پروگرام ہے، جو پاکستان لے رہا ہے۔ آئی ایم ایف ہمیں یہی بتاتا ہے کہ اپنے وسائل بڑھائیں اور اپنے اخراجات گھٹائیں، اس کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی۔
اسد علی شاہ کا کہنا تھا کہ ظاہر ہے کہ ادھار لینے اور مالی خسارے کی وجہ سے افراطِ زر بھی بڑھتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایک جانب آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے مالی خسارے کو کم کیا جارہا ہے تو دوسری جانب حکومت 250 ارب روپے کے لگ بھگ ریلیف فراہم کررہی ہے۔ یہ براہ راست آئی ایم ایف کے پروگرام سے متصادم ہے۔
حکومت کے اس عمل سے ملک کا مالی خسارہ اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ کم ہونے کے بجائے مزید بڑھے گا۔ آئی ایم ایف نے تجویز کیا تھا کہ وہ اجناس پر سب کو سبسڈی دینے کے بجائے انتہائی غریب افراد کو براہ راست سبسڈی دے۔ جس کا ڈیٹا احساس پروگرام کے تحت حکومت کو باآسانی دستیاب ہے۔ ان کے خیال میں اگر یہ طریقۂ کار اپنایا جاتا تو یہ آئی ایم ایف کو بھی قابل قبول ہوتا۔
اسد علی شاہ کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں معلوم کہ اب آئی ایم کے پرگرام کا کیا مستقبل ہوگا اور یہ حکومت نے بڑا رسک لیا ہے۔ یہ پروگرام فروری سے معطل رہنے کے بعد ابھی چند ہفتے قبل ہی بڑی مشکل سے بحال ہوا ہے۔
"حکومت نے 250 ارب روپے کی مالی گنجائش نکال کر عوام کو ریلیف دیا"
تاہم دوسری جانب حکومت کی معاشی ایڈوائزری کونسل کے رکن ڈاکٹر عابد قیوم سلہری کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین اور ایڈوائزری گروپ گزشتہ کافی عرصے سے صارفین کو ریلیف فراہم کرنے کے آپشنز پر کام کررہے تھے۔
اُن کے بقول وزیر اعظم کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ کسی خاص صورتِ حال کے جواب کے طور پر نہیں۔ ڈاکٹر سلہری کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پاکستان نے 250 ارب روپے کی مخصوص مالی گنجائش نکالی ہے، جو بجلی کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے استعمال کی جارہی ہیں۔
بے تحاشہ سول اور دفاعی اخراجات مالی خسارے کی بڑی وجہ؟
ادھر ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ حکومت معمول کے مطابق اگر ملک کو چلاتی رہے تو ایسے میں مالی گنجائش نکالنا مشکل ہی رہے گا۔
اسد علی شاہ کے خیال میں پاکستان کا ایک اہم مسئلہ بڑی حکومتی مشینری بھی ہے جس میں صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے 32 لاکھ کے قریب ملازمین اور بڑی تعداد میں وزرا اور مشیر بھی شامل ہیں۔ اور ان کی تعداد، تنخواہوں اور دیگر مراعات میں بھی تواتر سے اضافہ کیا جاتا رہا ہے۔
اسد علی شاہ کے مطابق پاکستان کی کُل آمدن یعنی جی ڈی پی کا محض 9 سے 10 فی صد حکومت کے کُل محصولات ہیں۔ اخراجات کا تخمینہ 21 فی صد سے بھی زائد ہے۔ اس کے مقابلے میں بنگلہ دیش کے اخراجات ان کے جی ڈی پی کے 15 فی صد کے برابر ہیں۔ ا
اُن کے بقول پاکستان میں محصولات کا ایک بہت بڑا حصہ دفاعی اخراجات میں بھی چلا جاتا ہے ان دونوں میں سمجھداری سے اخراجات کو کم کرکے عام آدمی کو ریلیف دینے کی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔