آزادی صحافت کی عالمی تنظیموں نےپاکستان میں صحافیوں کے خلاف عائد کیے گئے بغاوت کے الزامات پر تنقید کرتے ہوئے ہیں انہیں فوری طور پر واپس لینے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
فرانس میں قائم میڈیا کی آزادی کی بین الاقوامی تنظیم "رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز " نے فری لانسر وجاہت خان اور سینیئر صحافی شاہین صہبائی کے خلاف الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے۔
صحافیوں کی آزادی سے متعلق اس گروپ نے دونوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے "صرف صحافت کی ہے" اور کچھ نہیں کیا۔
اس ہفتے پاکستان کی پولیس کو متعدد ایک جیسی شکایات موصول ہوئیں جن میں از خود جلاوطن صحافیوں پر ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسانے اور فوج کو بدنام کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔ناقدین اس اقدام کو ملک میں آزادی اظہار کو دبانے کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
الزامات کا سامنا کرنے والے صحافی امریکہ اور برطانیہ سے کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر حالیہ مہینوں میں ذاتی سیکیورٹی خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان سے چلےگئے تھے۔ جن میں سابق ٹیلی ویژن میزبان اور موجودہ فری لانسر وجاہت سعید خان، انگریزی اخبار ڈان کے سابق مدیر شاہین صہبائی اور ٹیلی ویژن ٹاک شوز کے میزبان معید پیرزادہ اور صابر شاکر شامل ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
پولیس کو شکایات درج کرانے والوں نے خود کو "محب وطن شہری" کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ناقدین ان مقدمات کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔
صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے آر ایس ایف کے ایشیا پیسیفک ڈیسک کے سربراہ ڈینیئل باستغ نے وجاہت خان اور شاہین صہبائی کے حوالے سے کہا، "کوئی غلطی نہ کریں اس مضحکہ خیز شکایت کا واحد مقصد دونوں صحافیوں کو ڈرانا اور خاموش کرانا ہے۔"
ان کے الفاظ میں "پاکستان میں قانون کی حکمرانی کی ساکھ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ناقابل قبول فوجی مداخلت کی وجہ سے عدالتی آزادی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔"
صحافیوں کے خلاف الزامات 9 مئی کو سابق وزیراعظم عمران خان کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے پرتشدد ملک گیر مظاہروں سے جڑے ہوئے ہوئے ہیں۔
مظاہرین نے کئی فوجی مقامات اور یادگاروں کی توڑ پھوڑ بھی کی، جس کے بعد عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ہزاروں حامیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گرفتار ہونے والوں میں خواتین بھی شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے درجنوں کارکنوں کو دفاعی تنصیبات پر حملوں میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے کے الزام میں فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا ہے۔
صحافیوں کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے یوٹیوب شوز اور ٹوئٹر پوسٹس کے ذریعے، عمران خان کے حامیوں اور نظربندوں کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
یو ٹیوب پر اپنا شو چلانے والے صحافی معید پیرزادہ نے اپنے خلاف الزامات کو "جھوٹ اور بے بنیاد" قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا اور کہا کہ وہ پاکستان اور یہاں تک کہ امریکی عدالتوں میں اپنے وکلاء کے ذریعے ان الزامات کا مقابلہ کریں گے۔
ایک ٹوئٹر پوسٹ میں پیرزادہ نے لکھا، کہ اس کا واحد مقصد ملکی میڈیا کو مکمل طور پر دبانے کے بعد اب پاکستان سے باہر صحافیوں کی اختلافی رائے کو خاموش کرانا ہےؕ۔
Your browser doesn’t support HTML5
علاوہ ازیں، صوبہ پنجاب میں پولیس کی جانب سے اٹھائے جانے کے ایک ماہ بعد بھی ایک معروف صحافی عمران ریاض خان بدستور لاپتہ ہیں۔
رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ "آنے والے ہفتوں میں ممکنہ عام انتخابات کے سلسلے میں ملک کے اندر اور بیرون ملک پناہ لیے ہوئے پاکستانی صحافیوں کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طرف ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سامنا ہے۔
امریکہ میں قائم صحافتی تنظیم " کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس " پاکستان میں بڑھتی ہوئی سینسر شپ پر اپنی انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تنظیم کے ایشیا پروگرام کوآرڈینیٹر بیہ لی یی نے وائس آف امریکہ کو بتایا، "صحافیوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عوام کو ملک کی سیاسی صورتحال سے باخبر رکھیں۔"
"پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ سینسر شپ کی اپنی اعلانیہ کارروائیاں روکے اور میڈیا کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کے خوف کے بغیر آزادانہ طور پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
دریں اثنا، پاکستانی نیوز چینلز کو سابق وزیراعظم خان کی تصاویر دکھانے یا ان کا نام استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی ایک میٹنگ کے شرکا نے وائس آف امریکہ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ میڈیا مالکان کو یہ انتباہ فوج کے سینئر افسران نے کیا۔
عمران خان اور ان کے حامیوں کو "شرپسند" اور "نفرت پھیلانے والے" قرار دینے سے متعلق سرکاری نیوز کانفرنسیں، تقریریں اور بیانات ٹی وی چینلز پر اکثر نشر کیے جاتے ہیں۔ مزید برآں، تمام چینلز ہر گھنٹے کے بلیٹن میں آتشزدگی اور توڑ پھوڑ کے واقعات کی تصاویر بھی نشر کرتے ہیں۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی پارٹی کو ختم کرنے کے لیے کریک ڈاؤن اور میڈیا پر پابندی کے پیچھے پاکستانی فوج کا ہاتھ ہے۔ خان نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کا تشدد سے تعلق نہیں ہے، اور توڑ پھوڑ کا ذمہ دار حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والوں کو ٹہرایا ہے۔
و ائس آف امریکہ نے ان الزامات پر ردعمل کے لیے فوج کے میڈیا ونگ سے رابطہ کیا لیکن اسے فوری طور پر کوئی جواب نہیں ملا۔
پچھلے ہفتے فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے عمران خان کا نام لیے بغیر، کہا، "اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست کے خلاف نفرت پھیلانے والے اور سیاسی طور پر بغاوت کرنے والے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے گرد بھی قانون کی گرفت مضبوط کی جائے۔
(ایاز گل، وی او اے نیوز)