لندن میں مقیم پاکستانی فوج کے ناقد سوشل میڈیا ایکٹویسٹ اور یوٹیوبر عادل راجہ سے برطانوی پولیس نے اُن کے خلاف آنے والی شکایات سے متعلق پوچھ گچھ کی ہے۔
پاکستان میں گز شتہ سال اپریل میں پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عادل راجہ کے اہلِ خانہ کی طرف سے ان کے اغوا کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ لیکن چند گھنٹوں کے بعد عادل راجہ نے اپنے سوشل میڈیا پر لندن پہنچنے کی تصدیق کی تھی۔
عادل راجہ کے خلاف اس وقت اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں پاکستانی فوج میں بغاوت کی کوشش کرنے اور دہشت گردی کی دفعات سمیت غداری کے الزام میں مقدمہ بھی درج ہے۔
عادل راجہ اس وقت سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے جب عمران خان حکومت ختم ہونے پر انہوں نے اس کا الزام پاکستانی فوج کے بعض افسران پر عائد کیا۔ ان میں سے ایک افسر بریگیڈیئر راشد نے لندن میں اُن کے خلاف کیس کر رکھا ہے۔
لندن میں موجود ایک پاکستانی عہدیدار نے برطانوی پولیس کی عادل راجہ سے پوچھ گچھ کرنے کی تصدیق کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ پولیس نے حکومتِ پاکستان کی شکایت پر عادل راجہ کو پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔
اُن کے بقول لندن میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے برطانیہ کے حکام کو باضابطہ درخواست دی ہے کہ ایک پاکستانی شہری برطانیہ میں رہتے ہوئے پاکستان میں انتشار اور نفرت پھیلا رہا ہے۔
برطانوی پولیس کی جانب سے عادل راجہ سے پوچھ گچھ کی اطلاع کے بعد ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ 'عادل راجہ' ٹرینڈ کررہا ہے اور ان کی گرفتاری اور حراست میں لینے پر بحث کی جا رہی ہے۔
لندن میں مقیم صحافی مرتضی علی شاہ کی ایک ٹویٹ کے مطابق برطانیہ میں پاکستانی سفارتی ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ عادل راجہ کو ریاست کے خلاف تشدد پر اُکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
مرتضٰی علی شاہ کے مطابق عادل راجہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ اُن کا اپنے موکل سے گزشتہ 24 گھنٹے سے کوئی رابطہ نہیں ہے جب کہ پولیس نے بھی اُن سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
صحافی وجاہت کاظمی نے بھی ٹویٹ کی کہ عادل راجہ کو لندن کے مضافات سے برطانوی پولیس نے حراست میں لیا ہے۔ اُن کا لیپ ٹاپ اور اسمارٹ فون بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے سابق بریگیڈیئر حارث نواز نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ لندن میں عادل راجہ کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں، انہیں جلد پاکستان لایا جائے گا اور پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔
عادل راجہ ہیں کون؟
عادل راجہ پاکستانی فوج کے سابق میجر ہیں جو اب سے کئی سال قبل ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔
ان کے والد بھی پاکستان فوج میں کرنل تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال سرکاری ملازم کی طرف سے کسی بھی میڈیا پر نہ آنے کی شرط ختم ہونے کے بعد عمران خان کے دور ِحکومت میں انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے ٹوئٹرہینڈل کے ذریعے عمران خان کی حمایت اور پاکستانی فوج کے خلاف ٹوئٹس کا آغاز کیا۔
ان ٹوئٹس کو بہت زیادہ شیئر کیا جانے لگا جس کے بعد گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے اہل خانہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا گیا کہ انہیں اغوا کرنے کے لیے نامعلوم افراد نے ان کے گھر پر حملہ کیا ہے۔
اس دوران عادل راجہ کی اہلیہ سبین کیانی ٹوئٹر پر لگاتار ٹوئٹس کرتی رہیں اور ان کی گمشدگی کا کہتی رہیں۔ تاہم چند گھنٹوں کے بعد عادل راجہ نے ملک چھوڑنے اور اپنے لندن پہنچنے کی تصدیق کی۔
اس کے کچھ عرصہ بعد عادل راجہ نے اپنا یوٹیوب چینل بنایا جس پر انہوں نے پاکستانی فوج کے خلاف شدید تنقید شروع کردی اور پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کے بارے میں پاکستانی فوج کے افسران کے باقاعدہ نام لیے اور انہیں ذمے دار قرار دیا۔
عادل راجہ اپنے ذرائع کو 'خاموش مجاہد' کا نام دیتےہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ انہیں تمام تر معلومات فوج کے اندر موجود افسران سے ملتی ہیں۔
میجر (ر) عادل راجہ کے خلاف پاکستان سے جانے سے پہلے بھی زمینوں سے متعلق فراڈ کے بعض کیسز راولپنڈی میں درج ہیں جن میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے زمینوں کی خریداری میں کروڑوں کا فراڈ کیا ہے تاہم عادل راجہ ان تمام الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
گزشتہ سال عادل راجہ نے پاکستانی فوج کے لاہور میں تعینات افسر بریگیڈئیر راشد کے خلاف ان کی تصاویر کے ساتھ وی لاگ کیے اور ان کی تصاویر شائع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لاہور میں ہونے والی تمام سیاسی سرگرمیوں کے ذمے دار یہ افسر ہیں۔ اس کے بعد بریگیڈیئر راشد نے لندن میں عادل راجہ کے خلاف ہتکِ عزت کا کیس فائل کررکھا ہے۔
اس کے علاوہ لندن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما ناصر بٹ نے بھی ان کے خلاف کیس کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن کا کہنا ہے کہ عادل راجہ نے لندن کے مقامی شخص تسنیم حیدر کے ساتھ مل کر ان پر ارشد شریف کے قتل میں ملوث ہونے کے جھوٹے الزامات لگائے تھے۔
عادل راجہ پر 10 جون کو ایک مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں درج کیا گیا تھا جس میں عادل راجہ، امریکہ میں مقیم پاکستانی صحافی شاہین صہبائی،سید حیدر رضا مہدی اور وجاہت سعید خان پر الزام ہے کہ ان افراد نے نو مئی کے واقعات کے لیے لوگوں کو اُکسایا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے ان کے خلاف غداری اور دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
شاہین صہبائی اور وجاہت سعید کے خلاف بغاوت کے مقدمے پر 'آر ایس ایف' کا اظہارِ تشویش
دریں اثنا صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی صحافیوں شاہین صہبائی اور وجاہت سعید کے خلاف بغاوت کے مقدمے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
(آر ایس ایف) ایشیا پیسفک کے ڈیسک انچارج ڈینئیل باستغ نے ایک پریس ریلیز میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ ان دونوں صحافیوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ جس کی زیادہ سے زیادہ موت ہے کو واپس لیا جائے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے شخص کی مدعیت میں صحافیوں کے خلاف اسلام آباد میں مقدمہ درج کیا گیا ہے جسے کوئی نہیں جانتا۔
رپورٹ میں پاکستانی فوج کے دو سابق فوجی افسران عادل راجہ اور حیدر رضا مہدی کے خلاف اسی نوعیت کے مقدمے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دو صحافیوں اور دو سابق فوجی افسران کو ایک ہی صف میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا۔ سابق فوجی افسران نے ہو سکتا ہے کہ ملٹری سیکریسی سے متعلق ضوابط کی خلاف ورزی کی ہو، لیکن دونوں صحافیوں نے صرف صحافت کی ہے۔