دو برس قبل پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) سے راہیں جدا کرنے والے جہانگیر ترین نے پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کو ساتھ ملا کر 'استحکامِ پاکستان' کے نام سے نئی سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کر دیا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی سیاسی جماعت سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے بڑا دھچکہ ہے جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ یہ ملکی سیاست میں محض ایک اور سیاسی جماعت کا اضافہ ہے۔
بدھ کی شب سابق صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کی لاہور میں واقع رہائش گاہ پر پی ٹی آئی کے سابق رہنماؤں کا اکٹھ ہوا جس میں 100 سے زائد سیاسی شخصیات کی شرکت کا دعویٰ کیا گیا۔بعدازاں جمعرات کو لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران جہانگیر ترین نے نئی پارٹی کا اعلان کیا۔
سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل، علی زیدی، فواد چوہدری، فیاض الحسن چوہان، عامر کیانی، فردوس عاشق اعوان، مراد راس سمیت جنوبی پنجاب اور دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے سابق ٹکٹ ہولڈرز نے بھی پریس کانفرنس میں شرکت کی
کیا سابق وزیرِ اعظم عمران خان تنہا ہو چکے ہیں؟ نئی سیاسی جماعت انتخابی سیاست میں کس حد تک اثرانداز ہو گی؟ کیا مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مفادات اس نئی جماعت سے ٹکرائیں گے تو نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو پاکستان میں موضوعِ بحث ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نئی سیاسی جماعت میں شامل ہونے والے کئی سیاست دان ایسے ہیں جنہوں نے نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے کے ساتھ ساتھ سیاست سے بھی کنارہ کش ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم محض چند ہفتوں بعد ہی وہ نئے سیاسی کیمپ میں باضابطہ طور پر داخل ہو گئے ہیں۔
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست مفاد پرست اور موقع پرست سیاست دانوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے سیاست دان نظریات کے بجائے اپنے فائدے کی سیاست کرتے ہیں اور جب بھی ان پر یا ان کی جماعت پر مشکل وقت آتا ہے تو وہ اُس جماعت کو خیر باد کہہ کر نیا آشیانہ ڈھومڈ لیتے ہیں۔
'پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نیا واقعہ نہیں'
سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب کسی سیاسی جماعت کو توڑنے کے لیے نئی سیاسی جماعتیں بنائی گئیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ن) کو توڑ کر مسلم لیگ (ق) بنائی گئی۔ اس سے قبل سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کی مسلم لیگ (جونیجو) کو توڑ کر مسلم لیگ (ن) بنائی گئی تھی۔
اُن کے بقول 50 کی دہائی میں سابق صدر اسکندر مرزا نے بھی مسلم لیگ توڑ کر ری پبلکن پارٹی بنائی تھی جب کہ پیپلزپارٹی کو توڑ کر نیشنل پیپلزپارٹی بھی بنائی گئی تھی۔
حامد میر کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی سربراہی میں بننے والی نئی جماعت آئندہ انتخابات میں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر سکتی ہے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اس جماعت میں شامل بہت سے لوگوں کو کہا گیا ہے کہ انتخابات میں اُن کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) یا پیپلزپارٹی اپنا اُمیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔
اُن کے بقول دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا عمران خان کا ووٹر بھی ان نئے اُمیدواروں کو ووٹ دے گا یا نہیں، اس کا پتا تو الیکشن میں ہی چلے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ نئی جماعت میں شامل ہونے والے لوگوں کو مقدمات سے نجات بھی مل گئی ہے اور نیا پلیٹ فارم بھی مل گیا ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ اِس پلیٹ فارم سے اِن کو سیاسی کامیابی بھی ملے۔
حامد میر کہتے ہیں کہ اس نئی جماعت میں شامل ہونے والے بیشتر رہنما 2018 کے انتخابات میں عمران خان کے ووٹ اور بلے کے نشان پر منتخب ہوئے تھے۔
'جنوبی پنجاب کی سیاست زیادہ متاثر ہو گی'
تجزیہ کار اور سینئر صحافی افتحار احمد کہتے ہیں کہ نئے سیاسی دھڑے کے باعث عمران خان اور پی ٹی آئی مشکلات میں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ نئی سیاسی جماعت کا زیادہ اثر جنوبی پنجاب اور سرائیکی علاقوں پر ہو گا کیوں کہ زیادہ تر وہ لوگ اس میں شامل ہوئے ہیں جن کا تعلق سرائیکی بیلٹ سے ہے۔
افتحار احمد کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین ان دنوں خاصے بیمار ہیں اور وہ اپنے علاج کے لیے لندن جانا چاہتے ہیں۔ لہذٰا اُن کی کوشش ہے کہ لندن جانے سے قبل وہ پوری طرح متحرک ہو کر نیا سیاسی گروپ بنا لیں۔
اُن کے بقول دوسری جانب شاہ محمود قریشی آنے والے دنوں میں پی ٹی آئی کی کمان سنبھالتے ہیں تو بکھرتی پارٹی کو سمیٹنا اُن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
عمران خان کو کیا نقصان ہو گا؟
حامد میر کہتے ہیں کہ عمران خان کے قریبی ساتھی فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان جیسے لوگ بھی نئی سیاسی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں جب کہ سندھ سے عمران اسماعیل اور علی زیدی بھی اُنہیں چھوڑ گئے ہیں۔ ایسے میں عمران خان سیاسی تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔
افتحار احمد کے بقول عمران خان کا اب بھی یہ خیال ہے کہ پی ٹی آئی کا عام ورکر ان کے ساتھ ہے جب کہ عوامی سطح پر بھی اُنہیں حمایت حاصل ہے۔
اُن کے بقول سیاسی جماعت کا کارکن بھی اسی وقت متحرک ہوتا ہے جب قائد خود میدان میں ہو۔ جیسا کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ساتھ ہے کہ ان کا ورکر تو کراچی میں ہے، لیکن قائد نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پر کیا اثر پڑے گا؟
حامد میر کی رائے میں اِس نئے سیاسی دھڑے کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو نقصان نہیں ہو گا کیوں کہ یہ دھڑا اُن کی مرضی سے بن رہا ہے۔
اُن کے بقول پیپلزپارٹی کی یہ کوشش تھی کہ پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب سے لوگ نئی جماعت میں شامل ہو جائیں لیکن بہت سے رہنما ترین گروپ میں شامل ہو گئے ہیں۔
افتخار احمد کے خیال میں جہانگیر ترین کے نئے سیاسی دھڑے کا نقصان پی پی پی کو کم اور مسلم لیگ (ن) کو زیادہ ہو سکتا ہے کیوں کہ اس میں بہت سے الیکٹیبلز بھی شامل ہیں جو پنجاب کی سیاست پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔
عمران خان کا ووٹر کدھر جائے گا؟
افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ ووٹر ہمیشہ اپنے لیڈر کو دیکھتا ہے، اگر لیڈر میدان میں نہ ہو تو وہ مشکل میں آ جاتا ہے کہ ووٹ کس کو دے۔ وہ ووٹ ڈالنے ضرور جاتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی پی پی کا ووٹر آج بھی لاہور کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے ضرور جاتا ہے لیکن اُس کے نتائج کچھ بھی نہیں نکلتے۔
اُنہوں نے کہا کہ ووٹر کو گھر سے لیڈر نے نکالنا ہوتا ہے اور لیڈر ہی اپنے ووٹر کو متاثر کرتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات فواد چوہدری جیسے لوگ بھی جہانگیر ترین کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے جو بڑے نعرے لگواتے تھے اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بہت کچھ کہا کرتے تھے۔
حامد میر سمجھتے ہیں کہ عمران خان کا ووٹر اُس صورت میں اُن کے ساتھ کھڑا رہے گا اگر وہ خود انتخابی سیاست میں حصہ لیں گے۔ لیکن لگتا نہیں کہ عمران خان الیکشن لڑ سکیں گے۔
اُن کے بقول اس صورتِ حال میں پی ٹی آئی کا ووٹر کشمکش کا شکار ہو گا، لیکن عمران خان کا ووٹر اُن لوگوں کو ووٹ نہیں دے گا جو عمران خان کو چھوڑ کر گئے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹر اِن لوگوں کی مخالفت میں کسی اور کو ووٹ دے دے لیکن عمران خان کے ساتھ بے وفاقی کرنے والوں کو ووٹ نہیں دے گا۔