|
افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ سے وابستہ ایک تنظیم نے منگل کو دعویٰ کیا ہے کہ کابل میں گزشتہ روز ہونے والے ایک خودکش بم دھماکے کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا، جس میں ڈی فیکٹو حکومت کے مطابق کم از کم چھ افراد ہلاک اور 13 دیگر زخمی ہوئے۔
افغان دارالحکومت میں پیر کو ہونے والے حملے کے فوراً بعد حکومت نے ہلاکتوں کی اطلاع دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایک شخص نے ہجوم کے درمیان اپنے جسم پر باندھے ہوئے دھماکہ خیز مواد سے خود کو اڑادیا اور بیان میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو عام شہری بتایاگیا تھا۔
SEE ALSO: پاکستان کا افغانستان سے داعش کمانڈر کی حوالگی کا مطالبہتاہم، مشرق وسطیٰ میں قائم عالمی دہشت گرد نیٹ ورک کی افغان شاخ نے، جسے اسلامک اسٹیٹ-خراسان یا IS-K کے نام سے جانا جاتا ہے، منگل کو اپنے ٹیلی گرام چینل پر ایک پوسٹ میں طالبان کے دعوؤں کو مسترد کیاہے۔
داعش خراسان نے زور دیا کہ اس کے ایک خودکش بمبار نے ریاست کی پراسیکیوشن سروس کو نشانہ بنایاتھا اور اس پوسٹ میں دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد "45 سے زیادہ" بتائی گئی ہے اور پوسٹ کا کہنا ہے کہ طالبان کے ارکان بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل تھے۔
داعش نے کہا کہ یہ حملہ طالبان کی جیلوں میں موجود مسلمان قیدیوں کا بدلہ لینے کے لیے کیا گیاتھا خاص طور پر ان قیدیوں کی بدنام زمانہ 'بگرام' جیل میں منتقلی کے بعد جسے انہوں نے امریکی دور اور قیدیوں کے خلاف اس کے طرز عمل کو دہرانےسے تعبیر کیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہ حوالہ کابل کے بالکل شمال میں واقع امریکہ کے زیر انتظام سابق فوجی اڈے اور حراستی مرکز کے بارے میں ہے۔ بگرام تقریباً دو دہائیوں تک اس وقت تک امریکی فوجیوں کے مرکزی اڈے کے طور پر کام کرتا رہا جب تک کہ وہ 2021 میں افغانستان سے انخلاء نہیں کر گئے، جس کے بعد طالبان دوبارہ اقتدار میں آ گئے۔
امریکی فورسز بگرام جیل میں دہشت گردی کے مشتبہ افراد اور طالبان باغیوں کو ایسے الزامات کے درمیان کہ وہاں قیدیوں کو بدسلوکی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حراست میں رکھتی تھیں۔
پیر کو کابل میں اسلامک اسٹیٹ-خراسان کے حملے سے ایک روز قبل طالبان کے جیل حکام کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ بگرام حراستی مرکز کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے اور کچھ قیدیوں کو پہلے ہی وہاں منتقل کیا جا چکا ہے۔ لیکن انہوں نے اس کی مزید وضاحت نہیں کی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
نہ تو داعش کے اور نہ ہی طالبان کی طرف سے کیے گئے دعوؤں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق کی جا سکتی ہے کیونکہ دونوں فریقوں پر اکثر ایسے حملوں کے بارے میں تفصیلات بڑھا چڑھا کر بیان کرنے یا پوشیدہ رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
طالبان حکام کا اصرار ہے کہ تین سال قبل ملک پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سے ان کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں نے افغانستان میں داعش-خراسان کو "تقریباً ختم کر دیا" ہے۔
تاہم امریکی حکام اور اقوام متحدہ کی رپورٹوں نے بار بار طالبان کے دعؤوں کی تردید کی ہے، جس میں اسلامک اسٹیٹ-خراسان کو خطے اور اس سے آگے تک دہشت گردی کے ایک بڑھتے ہوئے خطرے کے طور پر شناخت کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کچھ اطلاعات رائٹرز سے لی گئی ہیں۔