سریے والا سیٹھ اور حلیم عادل شیخ، معاملہ ہے کیا؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ (فائل فوٹو)

پاکستان کے صوبہ سندھ کے انسانی حقوق کمیشن نے رکن صوبائی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ کو ان کے "طنزیہ اور انسانی حقوق کے برخلاف بیان" پر وضاحت کے لیے طلب کر لیا ہے۔

کمیشن کی چیئرپرسن، جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی کے دستخط سے جاری شدہ ایک خط حلیم عادل شیخ کو بھیج دیا گیا ہے۔

حلیم عادل شیخ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے وزارتِ انسانی حقوق کے لیے نامزد فوکل پرسن افتحار لوند کی حمایت کی ہے جن پر خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے تحت مقدمہ درج ہے۔

افتحار لوند کا تعلق پاکستان تحریکِ انصاف سے ہے اور ان پر اپنے ہی ڈرائیور کے ساتھ غیر انسانی سلوک کے الزامات ہیں۔ افتحار لوند کے خلاف اقدامِ قتل، ہنگامہ آرائی کی دفعات کے تحت گھوٹکی کے ایک تھانے میں مقدمہ بھی درج ہے۔

حلیم عادل شیخ سے اس بیان پر بھی وضاحت طلب کی گئی ہے جس میں انہوں نے افتخار لوند کے اپنے ڈرائیور کے ساتھ مبینہ غیر انسانی سلوک کا حوالہ دیتے ہوئے سیاسی مخالفین کو دھمکانے کی کوشش کی تھی۔

اس سے قبل پیر کو وزیرِ اعلیٰ سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ محکمہ قانون کو افتخار احمد لوند کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے علاوہ سیاسی مخالفین کو ڈرانے دھمکانے کی شکایات بھی موصول ہوئی ہیں، جنہیں صوبے کے انسانی حقوق کمیشن کو بھیجا جا رہا ہے۔

حلیم عادل شیخ کا کیا موقف ہے؟

تحریکِ انصاف کے پارلیمانی لیڈر حلیم عادل شیخ نے انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے ملنے والے خط کی تصدیق کی ہے۔ تاہم، انہوں نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان کے چلنے والے جملے محض "ایک ہلکا پھلکا مذاق" تھے۔

حلیم عادل شیخ کا کہنا ہے کہ مخالفین سیاق و سباق سے ہٹ کر ان کے بیان کو پیش کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد کسی سیاسی مخالف کو ڈرانا یا دھمکانا نہیں تھا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں حلیم عادل شیخ نے افتخار لوند کی جانب اشارہ کرتے ہوئے گھوٹکی کے ضمنی انتخابات میں مخالفین کا مقابلہ کرنے کے لیے ازراہِ مذاق انہیں "سریے والا سیٹھ" کہہ کر مخاطب کیا تھا۔

افتخار لوند کون ہیں اور انہیں "سریے والا سیٹھ" کیوں کہا گیا؟

افتخار لوند کا تعلق ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی سے ہے اور وہ گزشتہ کئی سال سے پاکستان تحریکِ انصاف سے وابستہ ہیں۔ حال ہی میں انہیں وفاقی وزارتِ انسانی حقوق کی جانب سے سندھ کے لیے فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔

تاہم، ان پر اپنے ہی ایک سابق ملازم کو سریے کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنانے، جنسی حملہ کرنے اور مارنے پیٹنے کے الزامات ہیں۔

افتحار لوند جن پر اپنے ڈرائیور کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا الزام ہے۔

ان پر عائد اس الزام پر سول سوسائٹی اور مخالف سیاسی جماعتوں نے تحریک انصاف کی قیادت سے افتخار لوند کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، افتخار لوند کو اس کے برخلاف حال ہی میں صوبے میں وزارت انسانی حقوق کا فوکل پرسن مقرر کئے جانے پر تحریک انصاف کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔

سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چئیرمین مصطفٰی نواز کھوکھر نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا تھا اور اس بارے میں ریکارڈ طلب کر رکھا ہے۔ تاہم، وزارت انسانی حقوق کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فوکل پرسن کی تعیناتی میں میرٹ اور شفافیت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔

افتخار لوند اور ان کے قریبی ساتھی بھی ان پر عائد الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ متاثرہ شخص نے عدالت میں جمع کرائے گئے حلف نامے میں کہا ہے کہ اس واقعے سے افتخار احمد لوند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ کے پاس موجود وہ حلف نامہ جو عدالت میں جمع کرایا گیا تھا، اس میں متاثرہ شخص نے ایف آئی آر میں درج واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

افتحار لوند کے سابق ملازم کے بقول تفتیشی افسر نے اس کا کوئی بیان ریکارڈ کیا اور نہ ہی اسے مجسٹریٹ کے پاس بیان ریکارڈ کرانے کی اجازت دی گئی۔ 23 مئی کو جمع کرائے گئے حلف نامے میں متاثرہ شخص کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسے افتخار احمد کی کیس میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ جبکہ 27 مئی کو اسی کیس میں سنائے گئے عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان صلح پر کیس میں نامزد تمام ملزمان کو بری کردیا گیا ہے۔

حلیم عادل شیخ کے مطابق افتخار لوند کے خلاف شکایت موصول ہونے پر ان کے خلاف ان کی جماعت نے فوری انضباطی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ تاہم، وہ عدالت میں جب بے گناہ ثابت ہو گئے اور متاثرہ شخص نے ان کے خلاف درخواست بھی واپس لے لی تو ان کے خلاف مزید کسی کارروائی کی گنجائش نہیں رہتی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنی جماعت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتے۔ تاہم، افتخار لوند کے مخالفین کا کہنا ہے کہ انہوں نے متاثرہ شخص پر دباؤ، دھونس اور دھمکیوں سے بیان تبدیل کروایا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کا موقف؟

انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی شریک چیئرپرسن عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ انسانی حقوق کے اہم عہدے پر کام کرنے والے شخص کا کردار صاف ہونا ضروری ہے۔ ایک ایسا شخص جس پر ماضی میں انسانی حقوق کی پامالی کا الزام ہو اسے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟

عظمیٰ نورانی کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے اہم شعبوں میں ایسے لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے جو اس کے اہل ہی نہیں ہوتے۔ بہتر طرز حکمرانی کی مثالیں اسی لیے قائم نہیں کی جا سکتیں، کیونکہ یہاں عہدے نوازے جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ صوبائی انسانی حقوق کمیشن اتنا طاقتور تو نہیں کہ کسی رکن صوبائی اسمبلی یا کسی بھی عام شہری پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہونے پر کوئی سزا سنا سکے۔ تاہم، کمیشن کی جانب سے ایسے بیانات کا نوٹس لینا ہی خوش آئند ہے۔