انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد سے گرفتار ہونے والے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنوں اور ان کے حامی سول سوسائٹی کے ارکان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ایج آر سی پی کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایچ آر سی پی اسلام آباد سے سیاسی کارکنان کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتی ہے۔ جنہیں رواں ماہ 28 جنوری کو اسلام آباد میں ایک پُر امن احتجاج میں گرفتار کیا گیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن نے انسانی حقوق کے کارکن منظور پشتین کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ دوران احتجاج اس چيز کے کوئی شواہد نہیں ملے کہ مظاہرین تشدد کی طرف مائل ہوئے ہوں البتہ ویڈیو فوٹیج میں پُر امن مظاہرین سے پولیس کی بدسلوکی دیکھی جا سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ڈاکٹر مہدی حسن کی رائے میں پرامن مظاہرین کی دوران احتجاج گرفتاری غیر آئینی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں ہر ایک کو اپنے خیالات کے اظہار کا حق حاصل ہوتا ہے اگر لوگ پر امن رہیں تو انہیں احتجاج کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ پُر امن مظاہرے کو روکا بھی نہیں جا سکتا جب کہ کسی کی گرفتاری بھی نہیں ہونی چاہیے۔
ان کے بقول دوران احتجاج کوئی غیر قانونی فعل نہیں ہوا جس پر مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے اُنہوں نے صرف اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ گرفتار افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ ایک جمہوری معاشرے میں اظہار رائے پر پابندی مناسب نہیں ہے۔
'اظہار رائے پر پابندی بڑھتی جا رہی ہے'
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین بیرسٹر عابد ساقی سمجھتے ہیں کہ موجود دور میں ملک بھر میں اظہار رائے پر پابندیاں بڑھتی جا رہی ہیں جو کہ کسی طور مناسب نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عابد ساقی نے کہا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو پُر امن احتجاج کی اجازت دیتا ہے۔ اسلام آباد میں مظاہرہ کرنے والے افراد کی گرفتاری آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔
ان کے مطابق آئین کی شق نمبر نو اور 34 پاکستان کے تمام شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی اس طرح گرفتاری بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان بھر میں شہری آزادیوں پر قدغنیں لگائی جا رہی ہیں۔
'گرفتاریوں کے خلاف پارلیمان میں آواز اُٹھائی جائے گی'
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن سینیٹ فرحت اللہ بابر کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ اجلاس میں اِن گرفتاریوں کے خلاف آواز اُٹھائی جائے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے جو کہ قانون کے خلاف ہے۔
ان کے بقول گزشتہ کچھ عرصے سے محروم آوازوں کو دبانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر سمجھتے ہیں کہ اگر کسی نے کچھ غلط کام کیا ہے تو اِس ملک کے اندر قانون موجود ہے یوں لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے اُٹھا کر لاپتا کرنا بالکل غیر قانونی ہے۔
فرحت اللہ بابر نے کہا کہ یہ نوجوان جنہوں نے آواز اُٹھائی ہے اِس کا حل یہ نہیں ہے کہ آپ اُنہیں گرفتار کر لیں۔ حل یہ ہے کہ آپ اِن نوجوانوں کو گلے لگاو۔ اِن سے بات کرو۔ اِن کی آواز سنو۔ اِن کی آواز کو دبانے کی کوشش کے غلط نتائج نکلیں گے۔
انہوں نے گرفتاریوں کی مذمت بھی کی۔
اسلام آباد پولیس نے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ سمیت 30 افراد کو 28 جنوری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے سے گرفتار کیا۔
پشاور پولیس نے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو 27 جنوری کو گرفتار کیا تھا۔ جس کے بعد اُنہیں جوڈیشل ریمانڈ پر ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کر دیا گیا تھا۔
منظور پشتین کے خلاف پشاور میں درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ منظور پشتین نے 18 جنوری 2020 کو ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے آئین کو ماننے سے انکار کیا۔ ریاست کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔
کوئی قانون توڑے گا تو گرفتار ہوگا: وزیر داخلہ
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کہتے ہیں کہ پشتون تحفظ موومنٹ سے مذاکرات اپنی جگہ لیکن اگر کوئی ملک کا قانون توڑے گا تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے 'بی بی سی' سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ منظور پشتین پاکستانی شہری ہیں انہوں نے ملک کا قانون توڑا ہے۔ اسی لیے ان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اعجاز شاہ کے بقول جہاں تک پشتونوں کی بات ہے تو پشتون اس حکومت کے ساتھ ہیں۔