پاکستان کے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض پیرزادہ نے کہا ہے کہ لاپتا افراد کا معاملہ صرف وزارتِ انسانی حقوق کے فورم پر حل نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ملکی قواعد کے مطابق ان کی وزارتِ کو ایسے کیسز کی تحقیقات کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔
انسانی حقوق کے وزیر ریاض پیرزادہ سے منسوب ایک بیان حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنا جس میں انہوں نے لاپتا افراد کو غیرملکی ایجنٹ قرار دیا تھا۔ وفاقی وزیر سے منسوب بیان کے مطابق انہوں نےالزام عائد کیا تھا کہ تمام لاپتا افراد ہمسایہ ممالک اورکلبھوشن یادو کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم اب ان کی وزارت کی طرف سے اس بیان کی تردید سامنے آئی ہے۔
وزارتِ انسانی حقوق کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ کچھ صحافتی اداروں کی جانب سے اور سوشل میڈیا پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق سے اس بیان کو منسوب کرنا انتہائی نامناسب اور قابلِ تردید ہے۔
ترجمان وزارت انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرریاض پیرزادہ لاپتا افراد کے لواحقین کے دکھ اور تکالیف کامکمل احساس رکھتے ہیں اور اس سنگین مسئلے کےحل کے لیے اپنی بھر پور کوشش بھی جاری رکھے ہوئے ہیں اور آ ئندہ بھی جاری رکھیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں یہ وضاحت دینا بھی ضروری ہے کہ لاپتا افراد کامعاملہ صرف اور صرف وزارتِ انسانی حقوق کے فورم پر حل نہیں کیاجاسکتا کیوں کہ ملکی قواعد کےتحت وزارت کو ایسے کسی معاملے سے متعلق تحقیقاتی اختیارات تفویض نہیں کیےگیے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اختیارات،عدالتوں،وزارت داخلہ اور دیگر سول اداروں کے پاس ہیں۔ انتظامی امور صوبائی و سول حکومتوں کے دائرہ کار میں آتےہیں۔اس اہم مسئلہ پر یہی تمام ادارے بہترطور پر تحقیقات بھی کر سکتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ترجمان کے مطابق وزارتِ انسانی حقوق کے فورم سے اس مسئلے کےحل کے لیے پارلیمنٹ میں تجاویز اور بل بھیجا جاچکا ہےجو وزارت داخلہ،دیگر پارلیمانی کمیٹیوں میں زیربحث ہے۔امید ہےکہ جلد اس پر کارروائی مکمل کر لی جائے گی جو پارلیمنٹ کے فیصلوں کے تابع ہوگی اور اس پر کسی قسم کے غیر ملکی ایجنڈا کی پیروی نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ تمام اداروں کے نمائندہ ہیں۔
حکومت کی مجبوریاں؟
حالیہ دنوں میں جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کے معاملے پر حکومت کی طرف سے مجبوریوں کا اعتراف کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ پاکستا ن کی فوج کی قیادت کو لاپتا افراد کے معاملے پر تشویش ہے اور وہ خود نہیں چاہتے کہ شہریوں کے لاپتا ہونے کی مشق جاری رہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ ایسے مسائل ہیں جن پر کھلے بندوں بات نہیں ہو سکتی کیوں کہ اس سے متاثرہ خاندانوں کو تکلیف پہنچ سکتی ہے۔
جبری گمشدہ افراد کے بارے میں بل کی گمشدگی پر رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ایسے تمام بل گم ہو جائیں گے کیوں کہ وہ مسائل کا حل فراہم نہیں کرتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر مشاہد حسین نے کچھ روز قبل وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ایسے افراد کو بازیاب کروائے۔
SEE ALSO: ’لا پتہ ہونے والا فیروز تو کسی کے اونچا بولنے پر بھی ڈر جاتا تھا‘ان کا کہنا تھا کہ مسنگ پرسن کے حوالے سے بل کا غائب ہونا افسوسناک ہے اور انہوں نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ اس بل کو فوری طور پر انسانی حقوق کمیٹی کے اجلاس میں پیش کیا جائے۔
’لاپتا کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی‘
اس بارے میں انسانی حقوق کمیشن (ایچ آر سی پی) کی سابق چیئرپرسن زہرا یوسف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی وزرا کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ وہ اس اہم معاملہ پر سنجیدہ نہیں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس بات کا اندازہ ہونا چاہیے کہ یہ کس قدر سنگین معاملہ ہے لیکن اسے حل کرنے کے بجائے بعض وزرا ان ہی افراد کو بیرونی ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں۔
زہرا یوسف کا کہنا تھا کہ اس وقت مسنگ پرسنز کمیشن کی رپورٹ میں بلوچستان کے ہزارہ افراد کو غائب کرنے کے واقعات رپورٹ کیے جارہے ہیں۔ ان میں سے کچھ واپس بھی آئے ہیں لیکن سب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو افراد واپس آجاتے ہیں ان کے کیس بند کردیے جاتے ہیں لیکن ان کو غائب کرنے والے افراد سے متعلق تفصیلات سامنے نہیں آتیں اور نہ ہی ان کے خلاف ایکشن لیا جاتا ہے۔
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن کے مطابق یکم جون 2022 تک 8661 افراد کے لاپتا ہونے کی رپورٹ کی گئی ہے جن میں سے 6458 کیسز حل ہوچکے ہیں جبکہ 2238 افراد اب بھی لاپتا ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صرف مئی 2022 میں 50 افراد کے کیسز حل ہوئے جن میں سے 17 گھر واپس آئے، پانچ کو حراستی مراکز اور چھ کو جیل بھیجا گیا اور 2 افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ جب کہ 20 افراد کے کیسز جبری گمشدگی نہ ہونے کے کیسز قرار دیے گئے ہیں۔
کمیشن کے مطابق اب تک اس کے 469 اجلاس ہوچکے اور ان افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔