|
اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ یمن کی حکومت اور ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی ملک کے مالیاتی اداروں پر کنٹرول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف ادلے بدلے کی بینکنگ پابندیوں کا سلسلہ روکنے پر متفق ہو گئے ہیں۔
پیر کے روز، دونوں فریقوں نے یمن کے لیے اقوام متحدہ کے ایلچی ہینس گرنڈ برگ کو مطلع کیا کہ وہ " تنازعات کم کرنے کے لیے متعدد اقدامات پر متفق ہو گئے ہیں۔" یہ بات گرنڈبرگ کے دفتر نے ایک بیان میں کہی جس میں اس معاہدے کی ثالثی میں سعودی عرب کے "اہم کردار" کا شکریہ ادا کیا گیا۔
یہ معاہدہ ایک ایسے وقت ہوا جب متحارب فریقوں کے درمیان ملک کے بینکوں پر کنٹرول کے لیے رسہ کشی جاری تھی اور دونوں کو شدید مالی بحران کا سامنا تھا۔
ایلچی کے دفتر نے کہا کہ ان کے تازہ ترین معاہدے میں ’’دونوں جانب سے ایک دوسرے کے بینکوں کے خلاف کیے گئے تمام حالیہ فیصلوں اور ضابطوں کی منسوخی اور مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی فیصلے اور ضابطہ کار سے گریز شامل ہے ۔‘‘
مالیاتی تنازعےاور اثرات
مئی میں، حکومت کے زیر انتظام مرکزی بینک نے صنعا میں حوثیوں کے زیر قبضہ چھ بینکوں کے ساتھ لین دین پر پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ وہ ان کی عدن منتقلی کے ایک حکم کی تعمیل میں ناکام رہے تھے۔
نتیجے کے طور پر، حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں کرنسی ایکسچینج کے دفاتر، رقم کی منتقلی کی ایجنسیاں اور بینک ان چھ مالیاتی اداروں کے ساتھ مزید کام نہیں کر سکتے تھے۔
باغیوں نے،جوخود اپنا مرکزی بینک چلاتے ہیں اور مختلف ایکس چینج ریٹ کے ساتھ مختلف بینک نوٹ استعمال کرتے ہیں، کہا کہ یہ اقدام امریکہ اور سعودی عرب کی طرف سے حوثی بینکنگ سسٹم پر مالی دباؤ ڈالنے کی ایک ڈھکی چھپی کوشش ہے۔
حوثیوں نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے عدن میں حکومت کے 13 بینکوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے لین دین پر پابندی لگا دی، جس کا مطلب ہے کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والے اب ان 13 بینکوں کے ذریعے نہ تو ترسیلات زر وصول کر سکتے ہیں اور نہ ہی رقوم نکال سکتے ہیں یا جمع کرا سکتے ہیں۔
SEE ALSO: حوثی باغیوں پر امریکی پابندیوں کا یمن کے عوام پر کیا اثر ہو گاحوثی تحریک
حوثی مارچ 2015 میں دارالحکومت صنعا اور یمن کی آبادی کے بیشتر مراکز پر قبضہ کرنے، اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کو جنوب میں عدن منتقل ہونے پر مجبور کرنے کے بعد سے سعودی عرب کے زیرقیادت اتحاد سے لڑ رہے ہیں۔
باغیوں اور حکومت نے دسمبر میں اقوام متحدہ کی کی زیر قیادت جنگ کے خاتمے سے متعلق ایک روڈ میپ کے تحت جامع سیاسی عمل کی بحالی کے لیے کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
لیکن نومبر سے بحیرہ احمر کی جہاز رانی پر حوثیوں کے حملوں اور اس کے نتیجے میں امریکہ اور برطانیہ کی جوابی کارروائیوں سے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں ۔
SEE ALSO: حوثی باغیوں نے 4 ماہ کے دوران بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں کم از کم 43 حملے کیےمعاہدے کے اہم نکات
اہم اقتصادی اور انسانی مسائل پر اجلاس کا انعقاد
گرنڈ برگ کے دفتر نے بیان میں کہا کہ ،’’ تازہ ترین معاہدہ طے ہونے کے بعد متحارب فریق اقوام متحدہ کے روڈ میپ کی بنیاد پر تمام اقتصادی اور انسانی ہمدردی کے امور پر گفتگو کے لیے اجلاس منعقد کریں گے ۔‘‘
، اس نے" فریقین کو ایسی معیشت کے لیے تعاون کی ضرورت پر زور دیا جس سے تمام یمنیوں کو فائدہ پہنچے اور ایک ملک گیر جنگ بندی کے نفاذ اور ایک جامع سیاسی عمل کی بحالی میں مدد ملے "۔
SEE ALSO: یمن:متحارب فریقوں کے جنگ بندی کے وعدے،عرب ریاستوں کا خیر مقدمقومی ائیر لائن یمنیا کے تنازعات کا حل
بیان میں کہا گیا ہے کہ متحارب فریقوں نے یمن کی قومی ایئرلائن ،’ یمنیا ‘کے تنازعات کو حل کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے،جو حوثیوں پر صنعا کے بینکوں میں رکھے ہوئےاپنے فنڈز کو منجمد کرنے کا الزام عائد کر چکی ہے ۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ "کمپنی کو درپیش انتظامی، تکنیکی اور مالیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اجلاس منعقد کیے جائیں گے ۔"
معاہدے کے مطابق صنعاء اور اردن کے درمیان یمن کی پروازیں بحال ہوں گی، اور روزانہ کی پروازوں کو بڑھا کر تین تک کر دیا جائےگا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یمنیا ائیر لائن قاہرہ اور بھارت کے لیے بھی "روزانہ یا ضرورت کے مطابق" پروازیں چلائے گی
SEE ALSO: حوثی باغیوں کا نیا اقدام؛ یمن آنے والی امدادی پروازوں پر پابندی عائدبراہ راست مذاکرات کی ضرورت
گرنڈبرگ نے منگل کو بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں خطاب کرتے ہوئے، مہینوں کی گفت و شنید کے بعد ہونے والے معاہدے کو ایک "خوش آئند" قدم قرار دیا لیکن مزید گہری وابستگیوں کی ضرورت پر زور دیا ۔
انہوں نے متحارب فریقوں کے درمیان براہ راست مذاکرات پر زور دیتے ہوئے کہا، " عارضی اقدامات بینڈ ایڈز( عارضی جراحی پٹیوں )کے طور پر کام کر سکتے ہیں لیکن پائیدار حل فراہم نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ دیر پا مذاکرات کے بغیر کسی ملک گیر جنگ بندی اور سیاسی عمل کے لیے معقول راہ ہموار کریں گے۔"
مکمل سطح کی جنگ دوبارہ چھڑنے کاخطرہ
یمن کے لئے اقوام متحدہ کے ایلچی نے کہا ،چھ ماہ کی جنگ بندی کی 2022 میں میعاد ختم ہونے کے باوجود، تشدد کی سطح بڑی حد تک کم رہی ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ " مکمل پیمانے کی جنگ کے دوبارہ چھڑنے کا خطرہ موجود ہے۔"
Your browser doesn’t support HTML5
انہوں نے کونسل کو بتایا، "گزشتہ ماہ کے دوران، ہم نے فوجی تیاری اور کمک میں اضافہ دیکھا ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں کئی فرنٹ لائنز پر جھڑپوں کی اطلاع ملی ہے، اگرچہ وہ کنٹرول میں رہیں ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔