جرمنی میں اب ہائیڈروجن ٹرینیں چلیں گی

فائل فوٹو

جرمنی میں ڈیزل سے چلنے والی ٹرینوں کو 'بائے بائے' کہنے کا وقت آ گیا۔ اب صرف پانچ سال بعد ہائیڈروجن سے چلنے والی ٹرینیں ان کی جگہ لے لیں گی اور یہ صرف تاریخی میوزیم میں شو پیس کی حیثیت سے ہی نظر آیا کریں گی۔

جرمنی کی معروف فرم سیمنز نے ٹرین آپریٹنگ کمپنی ڈوئچے باہن کے ہمراہ ہائیڈروجن سے چلنے والی ٹرینیں متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔

دونوں کمپنیوں نے مشترکہ اعلامیے میں 2024 میں پہلی ہائیڈروجن ٹرین کا تجربہ کرنے اور اس سے اگلے سال 2025 سے باقاعدہ ہائیڈروجن سے چلنے والی ٹرینیں متعارف کرانے کا عزم ظاہر کیا۔

کمپنی کی جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ ہائیڈروجن ٹرین دو ڈبوں پر مشتمل ہو گی اور اس کی رفتار 160 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گی۔ ٹرین کو صرف 15 منٹ میں ری چارج کیا جا سکے گا۔

جرمن کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ ڈیزل سے چلنے والی 1300 ٹرینوں کو تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ ہائیڈروجن ٹرینیں ابتدائی طور پر 370 میل سے زیادہ علاقے کو کور کریں گی۔ ان ٹرینوں کو متعارف کرانے کا مقصد کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو کم کرنا ہے۔ ان کی بدولت ڈیزل سے چلنے والی 1300 ٹرینیں بند کر دی جائیں گی جو فضائی آلودگی کا سبب ہیں۔

ٹرین کو 'مائریو پلس ایچ' کا نام دیا گیا ہے جس میں ایک بیٹری اور چند فیول سیلز لگے ہیں جو ہائیڈروجن اور آکسیجن کو بجلی میں منتقل کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ مائریو پلس جرمن ریاست بیڈن ورٹمبرگ کے تین شہروں کے درمیان چلے گی۔ نئی ٹرین سے سالانہ 330 ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

کمپنی کا کہنا ہے کہ دوسرے مرحلے میں دو کے بجائے تین ڈبوں والی ٹرینیں چلائی جائیں گی جو ایک ہزار کلو میٹر کا ایریا کور کریں گی۔

جرمنی میں 2024 میں ہائیڈروجن ٹرین چلائی جائے گی۔

سیمنز موبیلٹی کے چیف آپریٹنگ آفیسر مائیکل پیٹر کے مطابق ہائیڈروجن کی مہم جدید ترین ہے۔ اسے فروغ دیا جارہا ہے تاکہ ریلوے کی نقل و حمل سے کاربن کا اخراج ختم ہوسکے۔ اس سے ماحولیات کو بھی محفوظ بنایا جاسکے گا۔

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کی ایک رپورٹ کے مطابق محتاط اندازہ ہے کہ جرمنی کا تقریباً 40 فی صد ریلوے نیٹ ورک اب بھی بجلی سے نہیں چلتا۔

فرانس کی السٹروم نامی ایک کمپنی نے سال 2018 اور 2020 کے درمیان شمالی جرمنی میں ہائیڈروجن سے چلنے والی ٹرین کا تجربہ کیا تھا تاہم اس تجربے سے محض اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا گیا کہ اس سے ریلوے کے سگنلنگ سسٹم اور زیادہ تیز رفتار ٹرینوں کے مقابلے کی نئی دوڑ کا آغاز ہو جائے گا۔