اقوامِ متحدہ نے تصدیق کی ہے کہ ایرانی حکومت دو سال قبل طے پانے والے جوہری معاہدے پر مکمل عمل درآمد کر رہی ہے۔
جمعرات کو سلامتی کونسل کو ایران کی جانب جوہری معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق ششماہی بریفنگ دیتے ہوئے عالمی ادارے کے سیاسی امور کے سربراہ جیفری فیلٹ مین نے کہا کہ ایران سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2231 پر عمل کرتے ہوئے عالمی اداروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔
مذکورہ قرارداد جولائی 2015ء میں منظور کی گئی تھی جس کے تحت منظور کیے جانے والے 'جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن ' میں اس معاہدے پر عمل درآمد کی تفصیلات درج ہیں جس کے تحت ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکا گیا ہے۔
مذکورہ معاہدہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان – امریکہ،برطانیہ، فرانس، روس اور چین – اور جرمنی کے ایرانی حکام کے ساتھ کئی سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کےبعد طے پایا تھا۔
جمعرات کو اپنی بریفنگ میں جیفری فیلٹ مین نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ معاہدے پر عمل درآمد 16 جنوری 2016ء کو شروع ہوا تھا جس کے بعد سے جوہری توانائی کا عالمی ادارہ (آئی اے ای اے) معاہدے پر عمل درآمد سے متعلق اب تک سات رپورٹیں جاری کرچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان تمام رپورٹوں سے واضح ہوتا ہے کہ ایران معاہدے میں شامل تمام شرائط پر عمل کر رہا ہے۔
جیفری فیلٹ مین کا مزید کہنا تھا کہ معاہدے پر عمل درآمد شروع ہونے کےبعد سے عالمی ادارے کو ایران کی جانب سے جوہری مواد یا مشینری کی خرید و فروخت یا فراہمی سے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔
تاہم اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے عالمی ادارے کی رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق نہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایران خطے میں عدم استحکام کا سبب بن رہا ہے۔
سلامتی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ شام سے یمن اور عراق سے لے کر لبنان تک ایران مسلسل دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہا ہے اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کا یہ کردار عدم استحکام اور تباہی کا باعث ہے۔
امریکی سفیر نے کہا کہ ان کا ملک ایران کا یہ رویہ کسی صورت برداشت نہیں کرے گا اور عالمی معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گا جس کے تحت قرارداد نمبر 2231 کی خلاف ورزی کرنے پر ایران پر پابندیاں بھی عائد کی جاسکتی ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو "بدترین سمجھوتہ" قرار دیتے ہوئے عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آکر اس معاہدے کومنسوخ کردیں گے۔
امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن بھی عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر ایران نے دہشت گردی کی حمایت ترک نہ کی تو امریکہ معاہدے سے دستبردار ہوسکتا ہے۔
اپنے خطاب میں نکی ہیلی نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران سے متعلق اپنی پالیسی کا تفصیلی جائزہ لے رہی ہے جس کے مکمل ہونے تک امریکہ جوہری معاہدے پر عمل درآمد جاری رکھے گا اور ایران سے بھی امید ہے کہ وہ بھی اس وقت تک معاہدے پر عمل کرتا رہے گا۔
سلامتی کونسل کے دیگر ارکان، یورپی یونین اور جرمنی کا موقف ہے کہ جوہری معاہدے کے نتیجے میں ایران کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا خطرہ ٹل گیا ہے اور دنیا مزید محفوظ ہوئی ہے۔