سائفر کیس؛ عمران خان کے جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن غیر قانونی قرار

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے جیل ٹرائل کے نوٹی فکیشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف اسے عمران خان کے لیے بڑا ریلیف قرار دے رہی ہے۔

منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی انٹرا کورٹ اپیل پر محفوظ فیصلہ سنایا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں جیل ٹرائل کے لیے جج کی تعیناتی کو درست قرار دیا ہے۔ تاہم فیصلے میں کہا گیا ہے کہ غیر معمولی حالات میں ٹرائل جیل میں کیا جا سکتا ہے، قانون کے مطابق جیل ٹرائل اوپن یا ان کیمرا ہو سکتا ہے۔

اس کیس میں جیل ٹرائل کے حوالے سے عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے پٹیشن دائر کی تھی کہ عمران خان کا جیل ٹرائل قانون کے مطابق نہیں ہے لہذا اسے کالعدم قرار دیا جائے۔

عدالت نے سائفر کیس میں جیل ٹرائل کا وزارت قانون و انصاف کی طرف سے جاری کردہ 29 اگست کا نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ نومبر کو کابینہ کی منظوری کے بعد جیل ٹرائل کے نوٹی فکیشن کا ماضی پر اطلاق نہیں ہو گا۔

کیس کی سماعت میں کب کیا ہوا؟

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیے کہ جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہیے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ جج نے آٹھ نومبر کو آخری خط لکھا، جج کا خط جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جیل ٹرائل سے متعلق آج تک جوڈیشل آرڈر نہیں آیا، مان بھی لیا جائے کہ 12 نومبر سے کابینہ کی منظوری کے لیے طریقۂ کار پر عمل کیا گیا تو پہلے کی کارروائی غیر قانونی ہو گی۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سائفر کیس میں ابھی تک جیل ٹرائل کی تمام کارروائی غیر قانونی ہے، اگر مستقبل میں بھی جیل ٹرائل کرنا ہے تو جوڈیشل آرڈر لائیں اور کابینہ سے منظوری لیں۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے مؤقف اختیار کیا کہ اس بات سے اتفاق ہے کہ جیل ٹرائل کو بند کمرے کا ٹرائل نہیں ہونا چاہیے اور جو کوئی بھی سماعت دیکھنا چاہتا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے۔

سائفر کیس میں شاہ محمود قریشی کے وکیل بیرسٹر تیمور ملک نے فیصلے کے بعد وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس فیصلے کو قانون و انصاف کی جیت قرار دیا۔

تیمور ملک کا کہنا تھا کہ حکومت اس کیس میں زبردستی جیل ٹرائل کرنا چاہتی ہے اور اس کیس میں اب تک ان کے اہلِ خانہ کو بھی شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔

سائفر کیس

سابق وزیرِ اعظم پر الزام ہے کہ انہوں نے سات مارچ 2022 کو واشنگٹن ڈی سی سے موصول ہونے والے سائفر کو قومی سلامتی کا خیال کیے بغیر اسے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

واضح رہے کہ عمران خان نے اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران سائفر کی مبینہ کاپی لہرا کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت گرانے کی سازش امریکہ نے کی ہے جب کہ امریکہ نے سابق وزیرِ اعظم کے الزامات کی بارہا تردید کی ہے۔

عمران خان سائفر کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل راولپنڈی میں ہیں۔

عمران خان کے خلاف 15 اگست 2023 کو ایف آئی اے میں باقاعدہ ایف آئی آر درج کی گئی تھی جس میں عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

اس کیس کے لیے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو خصوصی طور پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا جج مقرر کیا تھا اور وزارت قانون کی طرف سے اس کیس کے جیل ٹرائل کے لیے نوٹی فکیشن جاری کیے گئے تھے۔