اسلام آباد ہائی کورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی اشاعت کے معاملے پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں خبر شائع کرنے والے ادارے جیو اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن، صحافی انصار عباسی، ریزیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات روز میں تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کی صبح اس کیس کی سماعت کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چہل پہل معمول سے بڑھ کر تھی اور سیکیورٹی میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔
سماعت کے موقع پر کمرۂ عدالت میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی خبر دینے والے صحافی انصار عباسی، اشاعتی ادارے کے سربراہ میر شکیل الرحمٰن اور ریذیڈنٹ ایڈیٹر عامر غوری موجود تھے۔
عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود سابق جج رانا شمیم پیش نہ ہوئے۔ البتہ ان کے صاحبزادے عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ والد کی طبیعت ٹھیک نہیں۔
سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس اطہر من اللہ نے میر شکیل الرحمٰن کو روسٹرم پر بلا کر ریمارکس دیے کہ آزادیٔ اظہارِ رائے بھی بہت ضروری ہے لیکن انصاف کی فراہمی بھی اہم ہے۔ عدالت نے آپ کو بہت بھاری دل کے ساتھ طلب کیا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ ایک بڑے میڈیا ہاؤس اور اخبار کے مالک ہیں۔ اگر کوئی حلف نامہ کہیں بھی دے دے تو کیا آپ اسے پہلے صفحے پر چھاپ دیں گے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا "سوشل میڈیا اور اخبار کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ آپ کی رپورٹ اس ہائی کورٹ کی خودداری سے متعلق ہے۔ اگر مجھے اپنے ججوں پر مکمل اعتبار نہ ہوتا تو یہ کارروائی شروع نہ کرتا۔ میں نے سماعت اس لیے شروع کی کیوں کہ ہم بھی احتساب کے قابل ہیں، اس عدالت کے ہر جج نے کوشش کی کہ عوام تک انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اگر عوام کا اعتماد عدلیہ پر نا ہو تو یہ بہت خطرناک ہے۔"
'بیانِ حلفی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے'
سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی کہتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ قصور رانا شمیم کا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رانا شمیم نے پرائیویسی کے قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس کے علاوہ تین سال تک ایک بہت اہم بات کو بھی چھپایا۔ اگر یہ جرم ہے تو وہ اس میں شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رانا شمیم کے دیے گئے بیانِ حلفی کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور یہ پاکستان کے کسی قانونی ادارے میں استعمال نہیں ہو سکتا۔
امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ یہ سیدھی سیدھی پاکستانی عدالتوں کی توہین اور ایک جج کو کسی معاملے میں شامل کرنے کی کوشش ہے۔ اگر یہ فیصلے کے بعد بیان دیتے تو شاید اس کو بیان کے طور پر دیکھا جاتا۔ لیکن اس مرحلے پر کہ جب کیس عدالت میں زیرِ سماعت ہے اس بیان حلفی کے ذریعے عدالت پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
'معاملے کی تہہ تک نہ پہنچے تو عدلیہ کی ساکھ پر سوال رہے گا'
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیریسٹر صلاح الدین احمد کہتے ہیں کہ عام روایت یہی ہے کہ زیرِ سماعت مقدمات سے متعلق خبریں شائع نہیں ہوتیں۔
اُن کے بقول ایسے مقدمات جو متنازع ہوں اور قومی سطح پر ان کا چرچا ہو تو اس سے متعلق حقائق سامنے لانا بھی میڈیا کی ذمے داری بن جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ ادارے اس الزام کی تحقیقات کریں اور اسے منطقی انجام تک پہنچائیں۔
بیرسٹر صلاح الدین احمد کہتے ہیں کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو بھی سامنے آئی مگر اس کے بعد کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں، سابق جسٹس شوکت صدیقی نے بھی نواز شریف کے کیس میں دباؤ کا ذکر کیا تھا اس کی بھی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ جب تک ان معاملات کی تہہ تک نہیں پہنچا جائے گا تو لوگ عدلیہ کی ساکھ پر سوالات اُٹھاتے رہیں گے۔
بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اگر کوئی غلطی ہوئی بھی ہے تو اس کا اعتراف کر کہ آگے بڑھنا چاہیے، عدلیہ میں اس طرح کا دھندلا پن عدلیہ کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔
واضح رہے کہ رانا شمیم نے 10 نومبر کو لندن کے اوتھ کمشنر کے روبرو ایک حلف نامے پر دستخط کیے تھے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی مریم نواز کی ضمانت رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ پر اثر انداز ہوئے تھے۔ تاہم ثاقب نثار نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
رانا شمیم کے بیانِ حلفی کی خبر مقامی انگریزی اخبار 'دی نیوز' کے صحافی انصار عباسی نے پیر کو دی تھی جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسی روز نوٹس لیتے ہوئے ابتدائی سماعت کی تھی۔
SEE ALSO: ثاقب نثار پر نواز شریف کی ضمانت روکنے کا الزام، اسلام آباد ہائی کورٹ کا نوٹسمنگل کو سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے میر شکیل الرحمٰن کو 'دی نیوز' کی ہیڈ لائن پڑھنے کا حکم دیا جس پر انہوں نے کہا کہ میری عینک پتا نہیں کہاں ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ نہیں پڑھ سکتے تو انصار عباسی صاحب آپ پڑھیں۔
انصار عباسی نے اس پر کہا کہ میں پہلے کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہیں گے، آپ نے جو کرنا تھا کر دیا۔ یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا سوال ہے اور مجھ پر آکر بات رکتی ہے۔
عدالتی حکم پر انصار عباسی نے ہیڈ لائن پڑھ کر سنائی۔
چیف جسٹس نے انصار عباسی سے استفسار کیا کہ یہ حلف نامہ تو جوڈیشل ریکارڈ کا بھی حصہ نہیں، چھ جولائی کو نواز شریف اور مریم نواز کو سزا ہوئی۔ 16 جولائی کو اپیلیں فائل ہوئیں، اس وقت میں اور جسٹس عامر فاروق اس وقت بیرونِ ملک چھٹی پر تھے۔ جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کے سامنے کیس مقرر ہوا، اپیلوں کی پیروی خواجہ حارث کر رہے تھے، کیا آپ نے خواجہ حارث سے پوچھا کہ الیکشن سے پہلے کیس سماعت کے لیے مقرر کرنے کی انہوں نے کوئی درخواست کی تھی؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ایک خیال ہے کہ یہ بیان حلفی جھوٹا ہے۔ اٹارنی جنرل صاحب بتائیں غلط بیانِ حلفی ہوا تو نتائج کیا ہوں گے؟
اس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ یہ سیدھا سیدھا مجرمانہ فعل ہے۔ اپیلوں سے پہلے یہ سب کیسے ہوا اس کی ٹائمنگ دیکھنا ہو گی۔
اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ چھ نومبر کو رانا شمیم کے بھائی فوت ہوئے اور 10 نومبر کو وہ لندن جا کر اپنا بیانِ حلفی ریکارڈ کرا رہے ہیں۔
'ثبوت لے آئیں ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا'
عدالت نے سابق جج رانا شمیم کے عدالت میں نہ ہونے کا پوچھا جس پر ان کے بیٹے اور وکیل رانا احمد حسن نے عدالت کو بتایا کہ رانا شمیم آئندہ سماعت پر پیش ہوں گے۔
عدالت نے کہا کہ جمعے کو وہ لازمی پیش ہوں۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ میری عدالت کے جج کے گھر یا چیمبر میں کوئی رسائی لے رہا ہے تو میں اس کا جواب دہ ہوں۔ اگر رانا شمیم یا انصار عباسی ثبوت لے آئیں تو میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف کارروائی کروں گا۔
اس موقع پر انصار عباسی نے کہا کہ میں نے بطور صحافی اپنی ذمہ داری پوری کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ صرف پیغام رساں ہیں؟ میر شکیل الرحمٰن بتائیں کیا گارڈین ایسی خبر چھاپے گا؟
'میں نے جو کیا عدالت کی عزت کے لیے کیا'
اس پر انصار عباسی نے کہا کہ جو کچھ کیا میں نے کیا ہے، چیف ایڈیٹر اور ایڈیٹر کے خلاف کارروائی نہ کریں، میں نے جو کیا وہ عدالت کی عزت کے لیے کیا۔ اُس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے آپ سے پوچھ کر کچھ نہیں کرنا، کیا یہ سب کورٹ کی عزت ہے آپ نے رجسٹرار سے بھی نہیں پوچھا؟
انصار عباسی نے کہا کہ میرے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ضرور کریں لیکن الزامات کی انکوائری کرائیں۔ یہ الزامات سابق چیف جج کے سابق چیف جسٹس پر ہیں۔
انصار عباسی کے مؤقف پر عدالت نے کہا کہ آپ چیزوں کو سیاسی انداز میں نہ لیں۔ یہ الزامات اس ہائی کورٹ پر ہیں۔ الزام اپیلوں پر سماعت کرنے والے بنچ کے سربراہ پر ہیں۔
عدالت نے باقاعدہ توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ دیتے ہوئے میر شکیل الرحمٰن، انصار عباسی، عامر غوری اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کو باقاعدہ شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دن کے اندر تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دیا۔
سماعت ملتوی ہونے کے بعد عدالتی احاطے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے انصار عباسی نے کہا کہ میں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری پوری کی، دونوں جج صاحبان سے باقاعدہ بات کی اور ان کی تصدیق کے بعد اس خبر کو رپورٹ کیا۔
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس خبر کی اشاعت میں ان کا کوئی سیاسی مقصد نہیں۔ البتہ اگر کوئی سیاسی جماعت اسے عدالت میں لے کر جاتی ہے تو لے جائے لیکن ان کا اس میں کوئی مقصد نہیں۔
کمرۂ عدالت کے باہر میر شکیل الرحمٰن سے صحافیوں نے سوال کیے لیکن انہوں نے کسی بھی سوال کا جواب نہ دیا اور مسکراتے رہے۔