اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ مری واقعے کی انکوائری کی ضرورت ہی نہیں۔ پوری ریاست اس کی ذمے دار ہے لیکن انگلیاں 'این ڈی ایم اے' کی جانب اُٹھتی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق مری کے رہائشی حماد عباسی کی درخواست پر جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سانحہ مری پر سماعت ہوئی۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ جب بڑی تعداد میں سیاح مری میں داخل ہو رہے تھے تو اُنہیں ٹول پلازہ پر کیوں نہیں روکا گیا۔ لہذٰا ذمے داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے حکام کو عدالت میں طلب کر لیا جس پر این ڈی ایم اے کمیشن کے رُکن ادریس محسود عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے 'این ڈی ایم اے' کے کردار پر شدید تنقید کی اور کہا کہ آپ کے چیئرمین نے قانون پڑھا ہے؟ کیا این ڈی ایم اے نے قانون کے مطابق ڈسٹرکٹ پلان بنایا؟ اگر مری کے لیے پلان بنایا ہوتا تو کیا یہ اموات ہوتیں؟ اگر ڈسٹرکٹ پلان موجود ہوتا تو کوئی ہوٹل والا زیادہ پیسے نہ لے پاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 'این ڈی ایم اے' سے متعلق کمیشن میں پوری ریاست شامل ہے۔ اپوزیشن لیڈرز اور چیئرمین جوائنٹ چیفس ہیڈکوارٹرز بھی اس کا حصہ ہیں، اس باڈی کے ہوتے ہوئے اور کسی انکوائری کی ضرورت ہے؟ اس میں شامل ایک ایک ممبر ذمے دار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صوبوں پر ذمے داری نہیں ڈال سکتے، قانون نافذ کیا ہوتا تو کوئی موت نہ ہوئی ہوتی۔ سب لگے ہوئے ہیں کہ مری کے لوگ قصور وار ہیں، مری کے لوگوں کا کیا قصور ہے انہیں کیوں بدنام کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ایسے مواقع پر این ڈی ایم اے کی کارکردگی سب کو نظر آنی چاہیے تھی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ این ڈی ایم اے کا آخری اجلاس کب بلایا گیا تھا جس پر این ڈی ایم اے کمیشن کے رُکن نے عدالت کو بتایا کہ کمیشن کا آخری مرتبہ اجلاس 2018 میں ہوا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیرِ اعظم نے این ڈی ایم اے کا اجلاس نہیں بلایا تھا تو اس کے اراکین ہی خود میٹنگ کر لیتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کی مدد کرنا مری کے عوام کی نہیں بلکہ ریاست کی ذمے داری تھی۔ اس معاملے میں اُنگلی این ڈی ایم اے کی جانب اُٹھتی ہے۔
خیال رہے کہ سات اور آٹھ جنوری کی درمیانی شب مری اور اس کے گردونواح میں شدید برف باری اور طوفان کے باعث سیاحوں کی سینکڑوں گاڑیاں برف میں پھنسنے سے 22 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
این ڈی ایم اے کا مؤقف
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ختم ہوئی تو این ڈی ایم اے کے رکن ادریس محسود نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ این ڈی ایم اے نے 31 دسمبر کو مقامی انتظامیہ کو ممکنہ خطرات سے متعلق وارننگ جاری کی تھی اور پانچ جنوری کو یہ وارننگ دوبارہ جاری کی گئی۔
اُن کے بقول وارننگ جاری ہونے کے بعد مقامی انتظامیہ اور حکومت کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی۔
پنجاب حکومت کی تحقیقاتی ٹیم مری میں موجود
دوسری جانب سانحہ مری کی تحقیقات کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کے اراکین مری میں موجود ہیں۔
اراکین پانچ جنوری کو شدید برف باری کی پیش گوئی کے بعد انتظامیہ کی تیاریوں اور سانحے کے روز تک کے واقعات کے دوران اقدامات اور ردِعمل سے متعلق رپورٹ پیش کرے گی۔
ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے جمعرات کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وعدے کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی سات روز میں اپنی رپورٹ جمع کرا دے گی۔