پاکستان کے مشہور سیاحتی مقام مری اور گلیات کے دیگر مقامات پر شدید برف باری کے باعث سڑکوں پر پھنسے ہزاروں افراد کو نکالنے کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔
اب تک برف میں پھنسی گاڑیوں میں موجود 21 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
شدید برف باری کے بعد مری کی سڑکیں درخت اور بجلی کے کھمبے گرنے اور بہت زیادہ برف کی موجودگی کی وجہ سے بلاک ہیں اور ہزاروں مسافر برف میں پھنسے ہوئے ہیں۔ پنجاب حکومت نے مری کو آفت زدہ قرار دے دیا ہے اور علاقے میں ایمرجنسی بھی نافذ کر دی گئی ہے۔
ریسکیو کارروائیوں میں سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج اور رینجرز کے دستے بھی طلب کرلیے گئے ہیں۔
ریسکیو 1122 کے مطابق برف میں پھنسنے کے باعث اب تک 21 افراد ٹھنڈ اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں جن میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد بھی شامل ہیں۔ حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
مری جانے والے تمام راستے بند کر دیے گئے ہیں اور انتظامیہ نے سیاحوں سے کہا ہے کہ وہ مری کا رخ نہ کریں۔
اس وقت کیا صورتِ حال ہے؟
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کی رپورٹ کے مطابق مری میں صورتِ حال خراب ہونے کے بعد حکام نے ہوٹلوں میں مقیم افراد کو وہیں رہنے کی ہدایت کی ہے اور گاڑیوں میں محصور افراد کو ریسٹ ہاؤسز میں ٹھیرانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔
پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ مسافروں کے لیے سرکاری ریسٹ ہاؤسز بھی کھول دیے گئے ہیں۔
مری کے ایک مقامی صحافی ظفر اقبال نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ گلیات کے علاقے جھیکا گلی سے کلڈنہ تک تقریباً تین کلومیٹر کا راستہ اب بھی بند ہے جب کہ کلڈنہ سے نتھیا گلی تک 30 کلو میٹر کی سڑک بھی اب تک بلاک ہے۔
ان کا کہنا تھا کلڈنہ سے نتھیا گلی روڈ پر زیادہ افراد پھنسے ہیں اور پولیس و انتظامیہ نے اس سڑک پر موجود گاڑیوں کی چیکنگ مکمل کرلی ہے۔ لیکن اب تک روڈ کلیئر نہیں ہو سکی۔
ظفر اقبال کے مطابق اس وقت مری کے ہوٹلوں میں کمرے دستیاب ہیں۔ لیکن چوںکہ علاقے میں بجلی کی فراہمی بھی معطل ہے، اس لیے سڑکوں پر پھنسنے والے کئی لوگ راولپنڈی اور اسلام آباد کی طرف واپس چلے گئے ہیں۔ لیکن انتظامیہ کی طرف سے راستے کھلنے تک لوگوں کو ہوٹلوں میں ہی قیام کرنے کی ہدایت کی جا رہی ہے۔
'شام تک راستے کلیئر ہو جائیں گے'
مری اور گلیات کے دیگر علاقوں میں فوجی و ریسکیو اہلکار سڑکوں سے برف ہٹا کر گاڑیوں میں پھنسے افراد کو نکال رہے ہیں۔ وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ مری میں 90 فی صد راستے کلیئر کرا لیے گئے ہیں۔
شیخ رشید نے دعویٰ کیا کہ ہفتے کی شام سات بجے تک تمام راستے کلیئر ہو جائیں گے اور گاڑیوں کو نکال لیا جائے گا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ نے وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کو بتایا کہ واقعے کی تحقیقات ہو رہی ہیں اور کوتاہی کے مرتکب ذمے داران کا تعین کیا جائے گا۔
'اب بھی لوگ مری جانے کے لیے ٹول پلازہ پر کھڑے ہیں'
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مری آ جائیں گے اور اتنا شدید طوفان آئے گا۔ نہ پہلے کبھی اتنی برف پڑی اور نہ ہی اتنے لوگ کبھی مری کی طرف آئے۔
وزیرِ داخلہ نے بتایا کہ مری میں سیاح رات کو گاڑیوں میں ہی سو رہے تھے اور سڑکوں کے کنارے گاڑیاں روک کر انجوائے کر رہے تھے۔ رات کو ہی لوگوں سے کہا کہ مری کا رخ نہ کریں لیکن لوگ نہیں رکے۔
"اب بھی ٹول پلازہ پر بہت سی گاڑیاں مری میں داخل ہونے کے لیے کھڑی ہیں۔ لوگ ویڈیو بنا رہے ہیں کہ اتنی گاڑیاں مری جانے کے لیے کھڑی ہیں۔ لوگوں کو ڈر ہی نہیں ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔"
شیخ رشید نے مزید کہا کہ مری چونکہ پنجاب حکومت کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے، اس وجہ سے وفاقی وزارتِ داخلہ نے پہلے اقدامات نہیں کیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ مری کے راستے کل صبح ہی بند کر دینے چاہیے تھے مگر جب پنجاب حکومت نے اقدامات نہیں کیے تو انہوں نے خود جمعے کی شام پانچ بجے مری کے راستے بند کرنے کے احکامات دیے۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ خود امدادی کاموں کی نگرانی کے لیے مری میں موجود ہیں اور انہیں امید ہے کہ چند گھنٹوں میں صورتِ حال پر مکمل قابو پالیا جائے گا۔
'لوگوں کے رش نے انتظامیہ کو مہلت نہ دی'
مری اور گلیات کے علاقوں میں پیدا ہونے والی ہنگامی صورتِ حال پر وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی افسوس کا اظہار کیا ہے۔
ٹوئٹر پر جاری اپنے بیان میں وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ مری میں شدید برف باری ہوئی اور لوگوں کی بڑی تعداد موسمی حالات کا جائزہ لیے بغیر مری کی طرف آئی جس کے باعث انتظامیہ ضروری اقدامات نہیں کر سکی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے اور وہ یقینی بنائیں گے کہ آئندہ ایسا سانحہ پیش نہ آئے۔
'موسمی حالات سے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا'
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا نے رپورٹ کیا ہے کہ مری میں ہونے والی شدید برف باری کے بارے میں محکمۂ موسمیات نے 31 دسمبر کو ہی الرٹ جاری کر دیا تھا۔
محکمۂ موسمیات کے ڈائریکٹر خالد ملک نے کہا ہے کہ اس بارے میں ہم نے قبل از وقت تمام اداروں کو آگاہ کر دیا تھا اور ہماری ویب سائٹ پر بھی یہ معلومات موجود تھیں۔ میڈیا میں بھی خبریں آرہی تھیں اور صورتِ حال کی خرابی کے حوالے سے آگاہ کیا جا رہا تھا۔
پانچ جنوری کو دوبارہ شدید بارش اور برف باری کی پیش گوئی کی گئی تھی لیکن اس کے باوجود ہزاروں سیاحوں نے مری کا رخ کیا۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ رات 23 ہزار سے زائد گاڑیاں مری سے نکالی گئیں اور ریسکیو آپریشن اب بھی جاری ہے۔
حکومت پر تنقید
اپوزیشن جماعتوں کے رہنما مری میں پیش آنے والے واقعے کا ذمے دار حکومت کو قرار دے رہے ہیں اور حکومت پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، نائب صدر مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سمیت کئی اہم سیاسی رہنماؤں نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور حکومت پر سخت تنقید کی ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کو بھی سوشل میڈیا پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے چند روز قبل اپنی ایک ٹوئٹ میں سیاحوں کی بڑی تعداد میں مری آمد کو خوش آئند قرار دیا تھا۔
فواد چوہدری نے کہا تھا کہ سیاحت میں یہ اضافہ عام آدمی کی خوش حالی اور آمدنی میں اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔
تاہم ہفتے کو لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ مری میں غیر معمولی برف باری اور کم وقت میں زیادہ لوگ پہنچے، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ صرف مری ہی نہیں، تمام بالائی علاقوں میں اس وقت سیاح موجود ہیں۔ سیاحت کے فروغ سے مراد یہ نہیں کہ سارے لوگ ایک ساتھ ہی آ جائیں۔ اس واقعے سے سیکھ کر آگے مینجمنٹ بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔