پشاور ہائی کورٹ نے کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی سیکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار پر توہین عدالت کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی ہے۔
عدالت نے توہین عدالت کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔
پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو کیس کی سماعت کی۔ عدالت میں توہین عدالت کی درخواست سانحہ آرمی پبلک اسکول میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین نے دائر کی تھی۔
درخواست کی سماعت پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل دو رُکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزار فضل خان ایڈوکیٹ کی جانب سے بیرسٹر امراللہ خان چمکنی نے عدالت میں دلائل دیے۔ اٹارنی جنرل اور صوبائی ایڈو کیٹ جنرل بھی عدالت میں موجود تھے۔ تاہم اُنہوں نے احسان اللہ احسان کے مبینہ فرار پر لاعلمی کا اظہار کیا۔
پاکستان کے وزیر داخلہ بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) اعجاز شاہ نے احسان اللہ احسان کے فرار کی تصدیق کی تھی۔
مختصر سماعت کے بعد پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے متعلقہ حکام کو دو ہفتوں میں جواب داخل کرانے کا حکم دیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ میں مئی 2017 میں ایک درخواست دائر کی گئی جس میں فضل خان ایڈوکیٹ نے عدالت سے درخواست کی کہ احسان اللہ احسان نے آرمی پبلک اسکول پر حملے سمیت متعدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس لیے اسے سخت سزا دی جائے۔
یہ درخواست تقریباً آٹھ ماہ تک زیر سماعت رہی جس کے بعد 13دسمبر 2017 کو چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں قائم بینچ نے حکومت کو احسان اللہ احسان کو رہا نہ کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ احسان اللہ احسان کے خلاف تحقیقات مکمل کی جائیں۔
خیال رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں حملے سے 133 بچوں سمیت 148 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ترجمان احسان اللہ احسان کے ذریعے قبول کی تھی۔
احسان اللہ احسان 2017 سے سیکیورٹی اداروں کی تحویل میں تھے۔ لیکن گزشتہ ماہ اُن کے فرار کی خبریں آنے لگیں۔ تاہم پاکستان کی فوج کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ البتہ چند روز بعد پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں ذرائع کے حوالے سے خبریں چلیں کہ احسان اللہ احسان ایک فوجی آپریشن کے دوران فرار ہوئے۔
احسان اللہ احسان کون ہے؟
احسان اللہ احسان پاکستان کے خیبر پختونخوا کے علاقے مہمند ایجنسی کے رہنے والے ہیں۔ اپریل 2017 میں پاکستان فوج کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اعلان کیا کہ احسان اللہ احسان نے خود کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کر دیا ہے۔ ان کا ایک ویڈیو بیان ٹی وی چینلز کو جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق، ان کا اصلی نام لیاقت علی ہے۔
اپنی ویڈیو میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں 2008 میں شمولیت اختیار کی۔ احسان اللہ احسان نے اپنی اعترافی ویڈیو میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان میں دہشت گردی کرنے کے لیے فنڈ مہیا کرتی ہے۔
احسان اللہ احسان سال 2013 تک کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا ترجمان رہے تھے۔ احسان تحریک طالبان پاکستان کے بعض سابق کمانڈرز کے ساتھ اس گروپ سے الگ ہو گئے اور انہوں نے جماعت الاحرار کے نام سے اپنا نیا دھڑا بنا لیا تھا۔
احسان اللہ احسان کو اس نئے دھڑے کا ترجمان مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے 70 سے 80 فی صد کمانڈر اور جنگجو جماعت الاحرار میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان میں سب سے معروف عمر خالد خراسانی تھا۔