رسائی کے لنکس

طالبان کمانڈر احسان اللہ احسان حکومتی تحویل سے رہا یا فرار؟


احسان اللہ احسان نے 2017 میں خود کو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے حوالے کیا تھا — فائل فوٹو
احسان اللہ احسان نے 2017 میں خود کو پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے حوالے کیا تھا — فائل فوٹو

کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے حکومتی تحویل سے فرار ہونے کی اطلاعات اور ان کے رشتہ داروں کے پر اسرار طور پر غائب ہونے کی افواہوں سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ دوسری طرف آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں مرنے والے بچوں کے والدین کی تنظیم کے عہدیدار نے اسے سازش قرار دیا ہے۔

فضل خان ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آرمی پبلک اسکول کے سانحے میں مارے جانے والے بچوں کے والدین کبھی بھی احسان اللہ احسان کو معاف نہیں کریں گے بلکہ انہیں عدالت کے کٹہرے میں لائیں گے اور عدالت ہی سے ان کو سزا دلائیں گے۔

خیال رہے کہ ایک غیر ملکی اخبار نے ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے حکومتی تحویل سے فرار جب کہ ان کے والد، بھائی اور چچا سمیت دیگر رشتے داروں کے پر اسرار طور پر غائب ہونے کی خبر شائع کی تھی۔ اس رپورٹ پر سرکاری طور پر تردید نہیں آئی۔ نہ ہی کوئی اور بیان جاری کیا گیا ہے۔

احسان اللہ احسان — فائل فوٹو
احسان اللہ احسان — فائل فوٹو

احسان اللہ احسان کے آبائی ضلع مہمند کی انتظامیہ نے بھی اس خبر کے حوالے سے مکمل خاموشی پر اکتفا کیا ہے۔

ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر صحافی نے بتایا کہ ان کے قریبی رشتہ دار بھی اپنے گاؤں میں نہیں ہیں مگر کوئی بھی اس حوالے سے کسی قسم کا تبصرہ یا بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔

غیر ملکی اخبار میں شائع رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی کے اہم رہنما احسان اللہ احسان کے سرکاری حفاظتی تحویل سے فرار ہوئے جس کے بعد ان کے والد، بھائی، چچا اور ایک بھتیجے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مبینہ طور پر حراست میں لیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔

کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ لگ بھگ ایک دہائی تک منسلک رہنے کے بعد قاری احسان اللہ احسان نے مارچ 2017 میں خود کو سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا تھا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

احسان اللہ احسان کی گرفتاری کے کچھ عرصے بعد افغانستان میں امریکی فوج نے تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں کو ڈرون حملے میں نشانہ بنایا جس میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔

فضل خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ان کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ نے دسمبر 2018 میں احکامات جاری کیے تھے کہ قاری احسان اللہ احسان کو نہ تو معافی ملے گی اور نہ رہا کیا جائے گا بلکہ ان کے خلاف دہشت گردی کے درج مقدمات میں قانون کے مطابق سزا ہو گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث افراد کے بارے میں خصوصی عدالتیں موجود ہیں لہٰذا احسان اللہ احسان کو عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلایا جائے۔

XS
SM
MD
LG