پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گرد حملے کو پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں متاثرہ والدین بھی بڑی تعداد میں شریک ہیں۔
سولہ دسمبر 2014 کو پشاور کے انتہائی اہم اور حساس علاقے میں واقع آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 133 بچوں سمیت 148 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حملے کے نتیجے میں ملک بھر کی انتظامی، سیاسی اور سیکیورٹی صورتِ حال میں کافی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔
ماضی میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 'نیشنل ایکشن پلان' ترتیب دیا۔ جس کے تحت دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف مقدمات جلد نمٹانے کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دی گئی۔
آرمی پبلک اسکول واقعے کی ذمہ داری کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی اور تنظیم کے ترجمان قاری احسان اللہ احسان نے واقعے کا اعتراف کیا۔
سترہ اپریل 2017 کو قاری احسان اللہ کی گرفتاری کا اعلان ہوا جس کے چند روز بعد یعنی 26 اپریل 2017 کو اس واقعے میں بھارت اور افغانستان کے ملوث ہونے کا بھی الزام لگایا گیا۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس واقعے میں ملوث اور پاکستان کو مطلوب پانچ دہشت گردوں کو گرفتار کر کے اُنہیں پاکستان کے حوالے کرنے کا دعویٰ کیا۔
قاری احسان اللہ احسان کی گرفتاری کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کے خلاف فوجی عدالت میں کارروائی کے مطالبات شروع ہوئے تو سابق وزیرِ مملکت برائے امور داخلہ طلال چوہدری نے 16 فروری 2018 کو ایوان بالا میں قاری احسان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا وعدہ کیا۔
تاہم حکومت کی جانب سے اس وعدے پر سرد مہری دکھانے پر ایک متاثرہ والد فضل خان ایڈووکیٹ کی درخواست پر 25 اپریل 2018 کو پشاور ہائی کورٹ نے قاری احسان کو رہا نہ کرنے اور ان کے خلاف فوری طور پر فوجی عدالت میں اوپن ٹرائل چلانے کا حکم دیا۔
پانچ اکتوبر 2018 کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے فضل خان ایڈووکیٹ کی درخواست پر پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان کی سربراہی میں واقعے کی تحقیقات کے لیے خصوصی عدالتی کمیشن قائم کر کے اسے چھ ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔
اس کمیشن نے اعلٰی سول، فوجی اور پولیس عہدے داروں سمیت 100 سے زیادہ افراد کے بیانات قلمبند کیے ہیں لیکن اب تک رپورٹ مکمل نہیں ہوسکی ہے۔