وسطی اور جنوبی امریکہ میں تعینات امریکی فوج کیا کر رہی ہے؟

امریکی فوج وسطی اور جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک میں تعینات ہے۔

گزشتہ ہفتے وسطی اور جنوبی امریکہ میں امریکی مشن کے کمانڈر ایڈمرل کریگ فالر اور ان کی ٹیم کے ساتھ وسطی امریکہ کے ملکوں ہنڈارس اور ال سلواڈور میں امریکی فوج کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔

امریکی فوج لاطینی اور وسطی امریکہ کے ان ملکوں میں تعلیم، صحت اور امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے جہاں سے بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرکے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔

خاص طور پر ہنڈارس اور ال سلواڈور میں، ان ملکوں میں غربت، بدعنوانی، تشدد، گینگز، منشیات کے کاروبار کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔

لہذٰا بڑی تعداد میں لوگ ہجرت کرکے گوئٹے مالا اور میکسیکو کے راستے غیر قانونی طور ذرائع امریکہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن کی تعداد بڑھنے کے باعث امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر تناؤ رہتا ہے۔

گزشتہ سال ہنڈارس سے شروع ہونے والا مہاجرین کا ایک بڑا قافلہ امریکہ کی طرف بڑھ رہا تھا اور دنیا بھر میں خبروں کا مرکز بن گیا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی وسط مدتی انتخابات سے قبل اس قافلے سے امریکہ کو درپیشں خطرات کا ذکر کیا تھا۔ جس کے بعد امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر نہ صرف بارڈر سیکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا بلکہ سرحد پر دیوار کی تعمیر کے لیے حمایت میں بھی اضافہ ہوا۔

جہاں ایک طرف سیاسی طور پر یہ کشمکش جاری ہے وہیں دوسری طرف امریکی فوجی مشن ان ملکوں میں سیکیورٹی اور انسانی حقوق کی بہتری کے لیے کام کررہا ہے۔ جس میں منشیات کے کاروبار کی روک تھام، گینگز کا مقابلہ، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولیات کی فراہمی شامل ہے۔

امریکی حکام کی یہ کوشش ہے کہ ان ممالک میں ہی انہیں ایسے وسائل مہیا ہوں کہ انہیں امریکہ کا رُخ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔ ان اقدامات کے لیے ہنڈارس اور ال سلواڈور میں امریکی فوجی اڈے نہایت اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔

ان ممالک کے شہری غربت اور بے روزگاری کے باعث امریکہ ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

امریکی فوجی اڈے اور ان کا کام

وسطی امریکہ کے ملکوں میں ہنڈارس اور ال سلواڈور میں امریکی اڈے موجود ہیں۔ ہنڈارس کے دارالحکومت ’تیگوسگالپا‘ میں ’سوٹو کانو‘ کے نام سے امریکی فوجی اڈہ ہے۔

ال سلواڈور کے شہر سین سلواڈور میں ’کومولاپا‘ نامی علاقے میں امریکی اڈہ قائم ہے۔ ان دونوں اڈوں کا انتظام جنوبی امریکہ کے لیے امریکی فوجی کمانڈ جسے ’سادرن یا جنوبی کمانڈ‘ کہا جاتا ہے کہ سپرد ہے۔ جس کے کمانڈر امریکی بحریہ کے ایڈمرل کریگ فالر ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس مشن کا اہم کام مقامی آبادی کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ جس کے لیے بحر اوقیانوس اور بحیرہ کیریبئین اور گلف آف میکسیکو کے پانیوں میں منشیات فروشی پر قابو پانا، گینگز اور تشدد کی روک تھام شامل ہیں۔

ایڈمرل کریگ فالر کے مطابق ان اڈوں پر رہنے والے فوجی جوان انتہائی مشکل حالات میں رہتے ہیں۔ جہاں ان کے لیے سیکیورٹی کےمسائل ہیں وہیں انہیں وہ بنیادی سہولیات میسر نہیں جو امریکہ میں ہیں۔

ایڈمرل فالر کے بقول فوجیوٕں کے لیے رہائش خیموں یا لکڑی کی بنی جھونپڑیوں میں ہے جہاں پانی اور بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں۔ اس کے لیے فوجیوں کو باہر جانا پڑتا ہے جہاں الگ سے اجتماعی طور پر نہانے اور بیت الخلا کا انتظام ہے۔ البتہ بجلی کی سہولت موجود ہے۔ ہمیں بھی ایک ایسی ہی جھونپڑی میں ٹھہرایا گیا جہاں سونا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، البتہ ایک دلچسب تجربہ بھی تھا۔

امریکی مشن ان علاقوں میں صحت اور تعلیم کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔

ہنڈارس اور ال سلواڈور کی اہمیت

ان دونوں ملکوں کی اہمیت کے بارے میں بات کریں تو ہنڈارس براعظم شمالی امریکہ کا ایک ایسا ملک ہے جس کی سرحدیں نیکاراگوا، ال سلواڈور، گوئٹے مالا اور بحیرہ کیریبئین سے ملتی ہیں۔ اور یہ واحد ملک ہے جس کی سرحدیں وسطی امریکہ کے چار ممالک سے ملتی ہیں۔

لیکن ہنڈارس ایسا ملک بھی ہے جہاں دنیا بھر میں قتل کی شرح سب سے زیادہ رہی ہے۔ یہاں انسانی غلامی، جنسی غلامی، یا جبری مشقت لیے جانے کی شکایت بھی عام ہیں۔ یہ علاقہ انسانی اسمگلنگ کے حوالے سے بھی خبروں میں رہتا ہے۔

عالمی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2012 میں انسانی اسمگلنگ کے شکار لگ بھگ دو کروڑ افراد میں سے 18 لاکھ کا تعلق لاطینی امریکہ کے ملکوں سے تھا۔

ال سلواڈور، ہنڈارس اور گوئٹے مالا کی سرحد سے منسلک وسطی امریکہ کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ لیکن وہاں بھی بذریعہ گوئٹے مالا لوگ امریکہ ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی اسمگلنگ کیوں ہوتی ہے؟

وسطی امریکہ کے ان ممالک میں غربت، بدعنوانی اور بے روزگاری کے باعث بہت سے لوگ کم اجرت پر گھروں میں مزدوری کرتے ہیں۔ یا ان سے جبری مشقت لی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ان علاقوں میں اسمگلنگ کے نیٹ ورک بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔

مقامی افراد کے مطابق ایسے نیٹ ورک ان غریب شہریوں کا استحصال کرتے ہیں۔ خواتین کے لیے ان ممالک میں مواقعے نہ ہونے سے ان کا بھی استحصال کیے جانے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ نامساعد حالات کے باعث لوگ اپنے معاشی مستقبل کا تحفظ امریکہ میں تلاش کرتے ہیں۔ اور 'امریکی خواب' کی تکمیل کے لیے انسانی اسمگلرز کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

وسطی اور جنوبی امریکہ سے غربت کے باعث خواتین اور بچوں کو میکسیکو اسمگل کرنے کی شکایات بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ کچھ ممالک میں ایسے بچے اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔ لیکن خاندان کو خوارک اور بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے یہ مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔

ان علاقوں میں ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔ جن میں منظم جرائم کے لیے خواتین اور بچوں کو استعمال کیا گیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کا اندازہ ہے کہ لاطینی امریکہ میں لگ بھگ 10 لاکھ بچے گھریلو ملازموں کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ جن میں سے 70 سے 80 فی صد بچے اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

غیر قانونی ہجرت

حکام کے مطابق ان ملکوں سے نکلنے کی خواہش میں لوگ خود ایسے اسمگلروں کے پاس بھی جاتے ہیں جو انہیں غیر قانونی ذرائع سے امریکہ پہنچاتے ہیں۔ امریکہ میں ان غیر قانونی تارکین وطن کو انتہائی کم تنخواہ پر زراعت، تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور گھریلو خدمات میں ملازمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ میکسیکو کے راستے امریکہ کی سرحد تک جانے کے لیے اسمگلر خطرناک راستے اختیار کرتے ہیں اور اسمگلنگ کے لیے زیارہ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں۔

امریکی فوج کا کردار

وسطی امریکہ میں جرائم پیشہ گروہوں کے بڑھتے ہوئے تشدد کی وجہ سے امریکہ کی جنوبی سرحد پر پناہ کے متلاشی افراد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہنڈارس اور ال سلواڈور کی مقامی حکومتیں امریکی فوج کے ساتھ مل کر جرائم پیشہ گروہوں اور اسمگلروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔

ال سلواڈور میں امریکی فوجی اڈے 'کومولاپا' کے کمانڈنگ آفیسر کرنل ایڈیسن ڈینئیل نے ہمیں امریکی فوجی اڈے کا تفصیلی دورہ کرایا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی سب سے بڑی کامیابی بحر ااوقیانوس اور بحیرہ کیریبئین کے پانیوں میں منشیات فروشوں کو روکنا ہے۔ جس کے لیے امریکی کوسٹ گارڈ اور مقامی انتظامیہ مل کر کام کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب انہیں منشیات کی اسمگلنگ کی اطلاع نہ ملے۔ لیکن منشیات کی روک تھام سے بڑھ کر انسانی جانیں ہیں جن کو وہ بچا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اربوں ڈالر کی منشیات اسمگل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر کلو گرام ہیرویئن کی اسمگلنگ روکنے کا مطلب سیکڑوں جانوں کا بچانا ہے۔

ہنڈارس میں 'سوتو کانو' نامی امریکی فوجی اڈے میں جوائنٹ ٹاسک فورس کے کمانڈنگ آفیسر کرنل سٹیون بیری اور ان کی ٹیم نے ہمیں اس اڈے کی مقامی آبادی کے لیے اہمیت کے بارے میں بتایا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکی ہیلی کاپٹرز کی مدد سے تشدد زدہ علاقوں میں بنیادی طبی امداد کی فراہمی یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاکہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر غیر قانونی ہجرت پر مجبو ر نہ ہوں۔

کرنل بیری نے ایک ایسا واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ایک ایسی عورت کے تین دانت نکالے گئے جسے گزشتہ دس سالوں میں صحت کی سہولیات نہیں ملیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جب لوگوں کو یہ احساس ہو گا کہ ہم ان کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں تو پھر وہ اپنا ملک چھوڑنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔

کرنل بیری کے ساتھ ہم نے امریکی فوجی اڈے پر بنائے گئے ایک اسپتال اور فوجی ہیلی کاپٹرز میں موجود طبی امداد کی سہولیات کا معائنہ بھی کیا۔ فوجی ہیلی کاپٹر دور دراز کے ان شہروں میں لے جائے جاتے ہیں جہاں گینگز کا تشدد عام ہے۔ جیسا کہ ’سان پیڈرو سولو‘ نامی شہر جسے دنیا بھر میں ’مرڈر کیپیٹل‘ کا نام دیا جا چکا ہے۔

امریکی آرمی کے ڈاکٹر کرنل گرینول ہینڈرسن کے مطابق ان شہروں میں گولیوں اور ایک مقامی خنجر ’’مشیٹی‘‘ کے ذریعے لوگوں کو ہلاک یا زخمی کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔

امریکی فوجی اہلکاروں کے مطابق اکثر ایسے زخم ہمیں جنگ زدہ علاقوں میں ہی دیکھنے میں ملتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی مقامی آبادی دوسرے ملک کی طرف ہجرت کرنے کا سوچتی ہے۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ رواں سال وسطی امریکہ میں 10 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو جائیں گے۔ جنوبی اور وسطی امریکہ میں امریکی فوجی مشن ان بے گھر افراد کی تعداد کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے۔ لیکن یہاں امریکی فوج کے کمانڈر ایڈمرل کریگ فالر کہتے ہیں کہ ابھی بھی یہ کافی نہیں ہے اور انہیں مقامی لوگوں کو تحفظ اورتعلیم اور صحت کی سہولیات میسر کرنے کے لیے مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔