آئی ایم ایف کی تین ماہ کے لیے پاکستان کو قرضوں کی شرائط میں چھوٹ

(فائل فوٹو)

کرونا وبا کے باعث پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے پیشِ نظر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے آئندہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران پاکستان کو دیے گئے قرضوں کی شرائط نرم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستانی وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد بجلی اور گیس کے نرخوں میں فی الحال اضافہ نہ کرنے جب کہ رواں سال سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔

آئی ایم ایف نے گزشتہ سال پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو اقتصادی اصلاحاتی پروگرام وضع کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔

پاکستانی وزارتِ خزانہ کے حکام اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان بات چیت کا تیسرا دور منگل کو ختم ہوا تھا۔ اس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے لیے اقتصادی اصلاحاتی پروگرام کی بعض شرائط کو نرم کرے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کے لیے پہلے مقررہ کردہ بجٹ خسارے کے ہدف کی حد کو بھی نرم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

یہ اتفاق رائے ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان کی حکومت جمعے کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کرے گی۔

پاکستان کی وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ حکومت دیگر ٹیکس محصولات کے ذریعے مالی خسارہ کم کرنے کی کوشش کرے گی۔

وزارتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال کے پہلے تین ماہ، جولائی اور ستمبر کےدوران آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط پاکستان کے لیے نرم کر دی جائیں گی لیکن رواں سال ستمبر کے بعد پاکستان کو ان شرائط پر عمل کرنا ہو گا۔

Your browser doesn’t support HTML5

’آئی ایم ایف کے پروگرام سے مہنگائی بڑھے گی‘

اقتصادی اُمور کے تجزیہ کار اور صحافی فرحان بخاری کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا پھوٹنے سے پہلے آئی ایم ایف نے پاکستان کے بجٹ خسارے سے متعلق جو ہدف مقرر کیا تھا اس میں گنجائش دی ہے۔

ان کے بقول تاحال یہ واضح نہیں کہ پاکستان کے لیے بجٹ خسارے کی کیا حد مقرر کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وزارتِ خزانہ کی طرف سے بھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

فرحان بخاری کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ رعایت صرف تین ماہ کے لیے دی گئی ہے کیوں کہ عالمی مالیاتی ادارہ ہر تین ماہ بعد پاکستان کا اقتصادی جائزہ لیتا ہے۔

فرحان بخاری کے بقول اس وقت دنیا کے دیگر ممالک کے طرح پاکستان کو بھی مشکل صورتِ حال کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت بشمول حزبِ اختلاف کو مل کر کام کرنا ہو گا۔

عالمی مالیاتی ادارے نے پاکستان کو اپنے مالیاتی خسارہ کم کرنے کے لیے اخرجات میں کمی، ٹیکس نیٹ بڑھانے اور بجلی، گیس کی قیمیتوں میں اضافے کی بھی تجویز دی تھی۔

لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے معیشت پر ہونے والے منٖفی اثرات کے باعث پاکستان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہین رہا۔

اقتصادی اُمور کے ماہر ڈاکٹر عابد سلہری کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستانی عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا جا سکتا ہے۔ اس وبا نے لوگوں کی مالی مشکلات میں بہت اضافہ کیا ہے جس سے نمٹنے کے حکومت کے لیے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر سلہری کے بقول اس وقت پاکستان ایک غیر یقینی صورتِ حال کا سامنا کر رہا ہے۔ اگر اگست میں کرونا کیسز اپنی انتہا کو پہنچے جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے تو پھر آئندہ مالی سال کے لیے مقرر کردہ اہداف کا ازسر نو جائزہ لینا پڑے گا۔

خبررساں ادارے 'رائٹرز' نے ایک سرکاری دستاویز کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی قومی پیداوار کی شرح نمو کا ہدف 2.3 فی صد مقرر کیا ہے جس میں زرعی پیداوار کا حصہ 2.9 فی صد، صنعت کا 0.1 فی صد جب کہ خدمات کا 2.8 فی صد ہو گا۔

لیکن حکومتِ پاکستان کی طرف سے آئندہ مالی سال کے لیے مجموعی قومی پیداوار کا یہ ہدف عالمی بینک کے ان جائزوں سے کہیں زیادہ ہے جن کے مطابق آئندہ مالی سال میں پاکستان کی مجوعی قومی پیدوار منفی میں رہے گی۔

قرض فراہم کرنے والے دیگر اداروں کے اندازوں کے مطابق آئندہ مالی سال میں پاکستان کی مجموعی شرح نمو منفی 2.6 فی صد ہو گی۔