بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی حکومت کی درخواست پر رواں مالی سال کے اختتام تک موجودہ ٹیکس اہداف برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
اس اتفاق رائے کے نتیجے میں حکومت ٹیکس اہداف پر نظر ثانی نہیں کرے گی اور بعض اہم ٹیکس اقدامات پر عمل درآمد آئندہ چھ ماہ تک معطل رکھے گی۔
ذرائع کے مطابق یہ اتفاق رائے آئی ایم ایف اور پاکستان کی حکومت کے درمیان تکنیکی سطح کے مذاکرات کے دوران طے پایا ہے۔
حکومت نے رواں مالی سال کے لیے 4 ہزار 963 ارب روپے کا ٹیکس ہدف مقرر کیا تھا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے حالیہ اتفاق رائے کے نتیجے میں رواں سال عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ نہیں ڈالا جائے گا اور ٹیکس اہداف کے حصول کے لیے انتظامی اور عمل داری اقدامات کیے جائیں گے۔
سابق وزیر خزانہ اور ماہر معیشت اشفاق حسن کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کے باعث خراب معاشی صورتِ حال میں یہ ایک اچھی خبر ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس مہنگی اور روپے کی قدر میں کمی، جب کہ شرح سود میں اضافہ نہیں کیا جانا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ عالمی ادارے کا پاکستان کے ساتھ رویہ مناسب نہیں جس کی وجہ سے مالیاتی پروگرام گزشتہ 10 ماہ سے معطل ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کو پاکستان پر شرائط عائد کرنے کے بجائے صرف اور صرف معاشی اصلاحات پر توجہ دینی چاہیے۔
اشفاق حسن کہتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا کی معیشت دباؤ میں ہے۔ لہٰذا ان کے بقول عالمی مالیاتی ادارے کو پاکستان پر غیر ضروری دباؤ ڈالنے کے بجائے اپنا رویہ بدلنا چاہیے۔
آئی ایم ایف نے گزشتہ سال جولائی میں پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر کے 'توسیعی فنڈ سہولت' کی منظوری دی تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
قرض کی یہ رقم تین سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً قسط وار جاری کی جانی تھی۔ لیکن اس کے لیے پاکستان کو اقتصادی اصلاحاتی پروگرام وضع کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
پاکستان کو اب تک آئی ایم ایف سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز، دو اقساط میں مل چکے ہیں۔ تاہم کرونا وائرس کے باعث یہ مالیاتی پروگرام معطل کر دیا گیا تھا۔
کرونا وائرس کے باعث حکومت کا آئی ایم ایف کے ساتھ دوسرا اور تیسرا سہ ماہی جائزہ نہیں ہو سکا۔
مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے گزشتہ ماہ امید ظاہر کی تھی کہ آئی ایم ایف کا معطل شدہ پروگرام جلد بحال ہو جائے گا۔
پاکستان میں آئی ایم ایف کی ریزیڈنٹ چیف ٹریسا ڈبن نے تصدیق کی کہ آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان مذاکرات چل رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی جانب سے اس پروگرام کے دوبارہ شروع کرنے سے متعلق کچھ شرائط ہیں۔ جن میں سب سے نمایاں پاکستان میں بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور اضافی ٹیکس کی وصولی شامل ہے۔
حفیظ شیخ نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں ٹیکس کی وصولی میں بہتری، سرکاری اخراجات میں کمی اور بہتر طریقے سے قرضوں کی ادائیگی شامل ہے۔
حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان زیادہ تر امور پر اتفاق ہے۔ البتہ دو معاملات پر اتفاق ہونا باقی ہے کہ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے اور وصولیوں میں اضافے کے لیے کس طرح آگے بڑھا جائے۔