پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے کے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سابق چیئرمین شبر زیدی ان دنوں خبروں میں ہیں۔ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں شبر زیدی نے اعتراف کیا کہ وہ ٹیکس وصولیوں میں اضافے اور ٹیکس چوری روکنے میں ناکام رہے۔
شبر زیدی نے پاکستان میں ٹیکس چوری کو ریاستی سرپرستی میں ہونے والی کرپشن سے تعبیر کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ریاستی سرپرستی سے اُن کی مراد حکومت نہیں بلکہ معاشی اصلاحات، جائیداد کی قیمت کے تعین کا پیچیدہ نظام ہے جس کے ذریعے لوگ اپنے اثاثوں کی مالیت کم ظاہر کرتے ہیں۔
سابق چیئرمین ایف بی آر نے حال ہی میں اراکینِ اسمبلی کے اثاثوں پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کئی اراکین اسمبلی اُن سے بھی کم ٹیکس دیتے ہیں حالاں کہ اُن کی آمدنی ایسے اراکین سے کئی گنا کم ہے۔
شبر زیدی کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے ٹیکس نظام میں بہتری کی بہت کوشش کی اور اس حوالے سے اُنہیں وزیر اعظم کی بھی مکمل حمایت تھی۔ لیکن نام نہاد اشرافیہ نے بھرپور مزاحمت کی۔
شبر زیدی کے مطابق وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ مُلک موجودہ 'اسٹیٹس کو' کے ساتھ کبھی بھی بہتری کی جانب گامزن نہیں ہوسکتا۔
ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ کیوں نہیں ہو رہا؟
ماہرین کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے کم ترین ٹیکس جمع کرنے والے ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایف بی آر کے اعدا د و شمار کے مطابق 20 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک میں محض 35 لاکھ کے قریب رجسٹرڈ ٹیکس دہندہ ہیں جو ملک کی آبادی کا محض ایک فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔
ماہرین اس قدر کم افراد کی جانب سے ٹیکس جمع کرانے کی وجوہات میں سیاسی مصلحت، ٹیکسز کی زیادہ شرح اور سب سے بڑھ کرغیر دستاویزی معیشت کو قرار دیتے ہیں۔
ماہر معاشیات اور ٹیکس معاملات کے ماہر ذیشان مرچنٹ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیاسی مصلحت اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اُن کے بقول خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں ٹیکسز کی شرح سب سے زیادہ ہونے اور باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے بجائے اُنہیں ہراساں کرنے سے لوگ ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کو ترجیحی سہولیات اور مراعات فراہم نہیں کی جاتیں جب کہ رہی سہی کسر اسمگلنگ نے پوری کر دی ہے۔ جس سے ملکی خزانے کو سیکڑوں ارب سالانہ کا نقصان ہورہا ہے۔
ذیشان مرچنٹ کے مطابق ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد محض 35 لاکھ تک محدود رہنا اس بات کی نشان دہی ہے کہ حکام کے پاس دولت مند افراد کی معلومات ہونے کے باوجود وہ انہیں ٹیکس کے دائرے میں لانے میں ناکام ہیں۔ اسی طرح موبائل فونز کے بلز اور جائیداد کی رجسٹریشن جیسے ذرائع سے باآسانی ایسے افراد کی نشان دہی کی جاسکتی ہے جو اثاثے، دولت اور بہتر آمدن رکھنے کے باوجود ٹیکس نیٹ میں نہیں لائے جا سکے۔
اُن کے بقول ان معلومات سے یہ نتائج اخذ نہیں کیے جا رہے جس کی وجہ سے ٹیکس نہ ادا کرنے والوں کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ان کے مطابق محصولات جمع کرنے کی شرح میں اضافے کے لیے نظام میں حقیقی تبدیلیاں لانا ناگزیر ہے۔
ایک اور ٹیکس ماہر اور 'بیکر ٹلی' پاکستان کے ڈائریکٹر علی اے رحیم کے مطابق گزشتہ سات دہائیوں سے ملک میں معیشت کو دستاویزی بنانے کا کبھی کوئی رحجان ہی نہیں رہا۔
اُن کے بقول اس پر صحیح معنوں میں کام 2016 میں شروع ہوا جس پر ابھی بھی بہت سا کام باقی ہے اور اب بھی 65 سے 70 فی صد معیشت غیر دستاویزی ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی عرصے میں بینک اکاونٹس کو شناختی کارڈ اور فنگر پرنٹس سے منسلک کیا گیا۔ اسی طرح ویلتھ اسٹیٹمنٹ کو ضروری قرار دینے اور ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کے اقدامات سے ٹیکس جمع کرانے والوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
علی اے رحیم ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والوں پر ٹیکس کی شرح زیادہ ہونے کو بہترسمت میں اٹھایا گیا قدم قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق دکان داروں کو ایف بی آر کے نظام سے منسلک کرنے اور دیگر اقدامات سے معیشت کو دستاویزی بنانے میں مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت ساری چیزیں تبدیل کی جارہی ہیں لیکن ان کے خیال میں اگر ایک ساتھ ہی ٹیکس کے نظام میں ایسی تبدیلیاں متعارف کرادی جاتیں تو شہری پریشان ہوتے اور وہ اس کے اثرات قبول نہ کرتے۔
علی اے رحیم نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ کھلا راز ہے کہ ملک بھر میں جائیداد کی قیمت ایف بی آر کی جانب سے تعین کردہ قیمتوں سے اب بھی 60 سے 70 فی صد زیادہ ہیں۔ لیکن اس بات کو سراہنا ہو گا کہ ایف بی آر نے ان کا جائزہ لے کر انہیں حقیقی قیمت کے قریب تر کرنے کی کچھ کوشش ضرور کی ہے۔
علی اے رحیم کے خیال میں شبر زیدی نے اگرچہ اپنی دانست میں بہترین کام کیا لیکن شاید وہ ایک ساتھ ہی تمام چیزوں پر فوری عمل درآمد ممکن بنانا چاہتے تھے۔ وہ غالباً یہ سوچ رکھتے تھے کہ چوں کہ ان کے پاس بمشکل تین سال ہیں لہذا وہ فوری عمل درآمد شروع کرنا چاہتے تھے۔
ان کے خیال میں شبر زیدی نے کام کا دباؤ لے لیا تھا۔ انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ معیشت کو دستاویزی بنائے بغیر ٹیکس کلیکشن یعنی محصولات میں اضافہ کرنا ممکن ہی نہیں لیکن اس کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
اُن کے بقول افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی مد میں ڈیوٹی فری درآمدات نے بھی ملکی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا۔
علی اے رحیم کے مطابق چند سال پہلے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے نام پر تاجروں نے 60 لاکھ کے قریب اسپلٹ ایئر کنڈیشنر منگوا لیے جو افغانستان جانے کے بجائے پاکستان ہی میں بکے اور خالی کنٹینرز پاک افغان سرحد سے گزار دیے گئے۔
علی اے رحیم کے مطابق معیشت کو دستاویزی بنانے کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے، تمام تر کاروباری اور ٹیکس کے نظام کو شناختی کارڈ سے منسلک کرنے اور اسمگلنگ کی سختی سے بیخ کنی سے بہتری ممکن ہے۔
'طاقت ور مافیا ٹیکس چوروں کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ ہے'
سابق بینکر اور معاشی اُمور کے ماہر ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر سرے سے موجود ہی نہیں رہا۔ اُن کے بقول پارلیمان میں بیٹھے سیاست دان بشمول حکومت معیشت کو دستاویزی بنانے میں سنجیدہ نظر نہیں آتی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ طاقت ور طبقوں پر حکومت ٹیکس لگانے کے لیے تیار ہی نہیں اور قانون کے مطابق حکومت جو ٹیکس جمع کر سکتی ہے وہ بھی یہ حکومت جمع کرنے کے لیے تیار نہیں۔
انہوں نے اپنی بات کے لیے یہ دلیل پیش کی کہ اپریل 2019 میں موجودہ حکومت کی جانب سے لائی گئی 'ٹیکس ایمنسٹی اسکیم' میں یہ قانون بھی متعارف کروایا گیا تھا کہ جو لوگ اس اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے ان کے اثاثے بحق سرکار ضبط کرلیے جائیں گے اور انہیں سات سال قید کی سزابھی دی جائے گی۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کے مطابق اگر اسی قانون پرعملدرآمد کرلیا جائے تو حکومت کو چند ماہ میں 900 ارب روپے تک کی آمدنی ہو سکتی ہے۔ لیکن حکومت طاقت ور طبقات کے دباؤ پر اس اسکیم سے فائدہ حاصل نہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس قومی بچت اسکیمز، بینک اکاؤنٹس، جائیدادوں اور گاڑیوں کی رجسٹریشن، اسٹاک مارکیٹس میں ہونے والی سرمایہ کاری، اندرون و بیرون ملک سفری اخراجات اور اس کے علاوہ دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی تفصیلات کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے۔
ڈاکٹر شاہد حسن کے مطابق یہ حکومت کی ناکامی نہیں بلکہ طاقت ور افراد کا حکومتی اداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو اپنے ہی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کی ضرورت ہے۔
ان کے خیال میں جائز آمدن پر ٹیکس لگانے کے بجائے حکومت کو زیادہ اثاثے رکھنے والوں کو ٹارگٹ کرنا چاہیے اور یہ معلوم کرنا چاہیے کہ انہوں نے یہ اثاثے کیسے بنائے اور اگر جائز اثاثے بھی ہیں تو اس پر پورا ٹیکس کیوں نہیں ادا کیا جاتا؟
ڈاکٹر شاہد کے مطابق اسی طرح ملک کی معیشت میں زراعت کا حصہ 18 فی صد ہے مگر اس سے بمشکل ڈھائی ارب روپے ٹیکس جمع ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زرعی ٹیکس کی شرح اس قدر کم ہونے کی وجہ قوانین میں پائے جانے والے سقم ہیں جو جان بوجھ کر رکھے جاتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ مسئلہ جائیداد کی کم متعین کردہ سرکاری قیمتیں ہیں جن کی مارکیت ویلیو کئی گنا زیادہ ہے۔ لہذٰا اس کا فائدہ با اثر اور دولت مند افراد خوب اٹھا رہے ہیں۔
تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی اعشاریے بہتری کی جانب گامزن ہیں جب کہ ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں 593 ارب روپے کے ٹیکسز جمع ہوئے حالاں کہ اس عرصے کے دوران ٹارگٹ 551 ارب روپے رکھا گیا تھا۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹیکس دینے والے افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
وفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں ٹیکسز جمع کرنے میں 17 فی صد اضافہ لایا جا چکا ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وبا کی وجہ سے اس میں کسی حد تک فرق بھی ضرور پڑا ہے۔
ادھر ایف بی آر حکام کے مطابق ایسے 10 لاکھ افراد کی نشان دہی کی جا چکی ہے جو قابل ٹیکس آمدن رکھنے کے باوجود بھی ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ اسی طرح 35 لاکھ لوگ ایسے ہیں جو نیشنل ٹیکس نمبر رکھتے ہیں اور وہ قانون کے تحت ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہیں۔
74 لاکھ ایسے لوگوں کی نشاندہی کی گئی جن کا ود ولڈنگ ٹیکس تو کاٹا جارہا ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اپنے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے۔
حکام کے مطابق ملک میں ایک لاکھ سے زائد کمپنیز رجسٹرڈ ہیں لیکن 50 ہزار سے زائد کمپنیاں ٹیکس ادا نہیں کر رہیں۔ اسی طرح 1 لاکھ 5 ہزار لوگ سیلز ٹیکسر رجسٹریشن نمبر رکھنے کے باوجود ریٹرنز جمع نہیں کرا رہے۔ ایسے لوگوں کو حکام کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے کہ وہ فوری طورپر ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کریں تاکہ ایسے افراد اور کمپنیاں کسی بھی تادیبی کارروائی سے بچ سکیں۔