عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے کرونا وائرس کے باعث پاکستانی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کے پیشِ نظر پاکستان کو ایک ارب 38 کروڑ ڈالر جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔
پاکستان کو مزید قرض کی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے واشنگٹن ڈی سی میں اپنے اجلاس کے دوران دی۔
اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق پاکستان یہ رقم کرونا وائرس سے اس کی معیشت پر پڑنے والے اثرات سے نمٹنے کے لیے خرچ کرے گا۔ اس سے پاکستان کو امدادی کاموں، ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان کی حکومت نے کرونا وائرس کے باعث خراب معاشی صورتِ حال کے پیش نظر ریپڈ فنانسنگ انسٹرومنٹ (آر ایف آئی) کے تحت آئی ایم ایف سے ہنگامی مالی مدد کی درخواست کی تھی۔
خیال رہے کہ کرونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے پورا ملک گزشتہ تین ہفتوں سے لاک ڈاؤن ہے۔ معاشی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے ملک کے اقتصادی اہداف کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اعلامیے کے مطابق آئی ایم ایف پاکستانی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے اور وائرس کے اثرات کم ہونے کے بعد حالیہ توسیعی فنڈ کی سہولت (ای ایف ایف) کے حوالے سےبات چیت کا آغاز کیا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ وائرس کے اثرات کم ہونے پر متعلقہ حکام سے توسیعی فنڈ کی سہولت کی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے نظر ثانی کا موقع ملے گا جس کے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔
پاکستان میں حزبِ اختلاف کے رہنما حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ کرونا وائرس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات کے پیش نظر آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر نظرثانی پر زور دیا جائے۔
حزب اختلاف کا اصرار ہے کہ قرض اور اس کی واپسی سے متعلق شرائط پر دوبارہ مذاکرات کیے جائیں اور شرائط نرم کرانے کی کوشش کی جائے.
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر جیفری اوکاموٹو نے کہا کہ وائرس سے پاکستانی معیشت پر نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے باعث لوگوں کا گھروں میں محدود رہنا اور بیرونی سرمایہ کاری میں غیرمعمولی کمی کے نتیجے میں ادائیگیوں میں توازن کی ضرورت فوری طور پر بڑھ گئی ہے۔
پاکستان کی حکومت نے کرونا وائرس کے منفی معاشی اثرات کو کم کرنے کے لیے لگ بھگ آٹھ ارب ڈالر کے معاشی پیکج کا اعلان کر رکھا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال جولائی میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالر قرض کی منظوری دی تھی جو تین سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً قسط وار جاری کیے جائیں گے۔
پاکستان کو اب تک آئی ایم ایف سے ایک ارب 44 کروڑ ڈالرز دو قسطوں میں مل چکے ہیں۔
ممتاز ماہر معیشت قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے مالی وسائل کی فراہمی کرونا وائرس کی جنگ کو لڑنے میں معاون ثابت ہوگی جس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قرض کے حصول سے فنڈز کی دستیابی بڑھ جائے گی لیکن حکومت کی غیر ضروری ترقیاتی اخراجات کم کرنے پر کوئی توجہ نہیں ہے۔
قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ حالات کی بہتری پر پاکستان کو یہ قرض سود کے ساتھ واپس کرنے ہیں۔ اُن کے بقول قرضوں کا پہاڑ ایک اور بحران پیدا کرسکتا ہے جو معیشت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
اسٹاک ایکسچینج میں تیزی اور روپے کی قدر میں اضافہ
آئی ایم ایف کی جانب سے مزید قرض کی منظوری اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں دو فی صد کمی کے بعد پاکستانی روپے کی قدر میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
جمعے کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی تیزی کا رُجحان دیکھا گیا۔
کاروباری ہفتے کے آخری روز مارکیٹ کے آغاز سے ہی مثبت رجحان دیکھا گیا اور کے ایس ای 100 انڈیکس میں تقریباً 1500 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
پاکستانی روپے کی قدر میں بھی بہتری دیکھی گئی اور انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 3.38 روپے کم ہو کر 163.50 روپے کی سطح پر آ گئی ہے۔
واضح رہے کہ سات اپریل کو ڈالر 167.89 روپے کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا تھا تاہم اس کے بعد اب تک ڈالر کی قیمت 4.39 روپے کم ہو چکی ہے۔
فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے لیے مزید قرض کی منظوری اور شرح سود میں کمی کے باعث روپے کی قدر میں بہتری آئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جی 20 ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ملکوں کے قرض کی واپسی کو موخر کرنے سے پاکستان پر رواں سال آٹھ ارب ڈالر واپسی کا بوجھ ختم ہوا ہے۔ لہذٰا اس سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔