عالمی اقتصادی نظام کو 2008ءکے بعد سے اب تک اپنی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے ۔ ماہرین معاشیات کوتوقع ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں یورپی پالیسی سازوں کو یہ ضرور سننے کو ملے گا کہ وہ اپنے قرضوں کے بحران کو حل کرنے کے لئے اطمینان بخش اقدامات نہیں کر رہے ۔
یونان میں جاری قرضوں کے بحران اور امریکہ کی سست رفتار معاشی ترقی کی وجہ سے یورپی معیشت کے لئے کسی بڑے بحران کا خطرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے اسےپوری عالمی معیشت کے لئے خطرناک قرار دے دیا ہے ۔
آئی ایم ایف کے چیف اکانومسٹ آلیور بلینچرڈ کہتے ہیں کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران عالمی معیشت کی بحالی کی امید کمزور ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ منڈیوں کو اعتبارہی نہیں ہے کہ پالیسی ساز اور حکومتیں قرضوں کی صورتحال کو بہتر بنا سکتی ہیں ۔ اس لئے صرف یورپی ملکوں میں ہی نہیں بلکہ جاپان اور امریکہ میں بھی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
آلیور بلینچرڈ کے مطا بق اگر مضبوط پالیسیاں اپنائی نہ گئیں تو اعتماد کی بحالی مشکل ہو جائے گی ۔ لیکن تجزیہ کار ڈومینیکو لومبارڈی پالیسیوں پر اتفاق رائے کرانے کے لئے زیادہ پر امید نہیں ۔
ان کا کہنا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ صرف بات چیت کی راہ ہموار کر سکتا ہے یا یورپی ملکوں سمیت تمام اہم معیشتوں کے اقتصادی وزراء کو واشنگٹن میں اکٹھا کر سکتا ہے ، لیکن اس سے زیادہ آئی ایم ایف کے بس کی بات نہیں ۔
آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لگارڈ کہتی ہیں کہ ایک اور معاشی بحران کو ٹالنے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے ۔
ان کے مطابق ترقی یافتہ معیشتوں کی بحالی کو خاص طور پرناقابل قبول حد تک بلند شرح بے روزگاری کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے ۔ یورو ملکوں میں قرضوں کا بحران سنگین ہو چکا ہے ، مالیاتی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور ایک بار پھر اجتماعی طور پر کسی جرات مندانہ اقدام کی غیر موجودگی میں یہ خطرہ حقیقی ہے کہ اہم معیشتیں آگے جانے کے بجائے پیچھے کی طرف جائیں گی۔
عالمی مالیاتی بحران کو ٹالنے کے لئے ہونےو الےیہ مذاکرات ترقی یافتہ معیشتوں کو مستحکم کرنے پر توجہ دیں گے لیکن مالیاتی ماہرین کے مطابق کسی فوری حل کا مطالبہ چین اور برازیل جیسی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں کی طرف سے سامنے آئے گا ، جن کی برآمدات کا ایک بڑا حصہ ترقی پذیر ملکوں کو جاتا ہے۔