بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران؛ کیا یورپ میں جنگ کا اندیشہ ہے؟

بیلاروس کے پڑوسی ممالک خبردار کر چکے ہیں کہ پناہ گزینوں کا یہ بحران یورپی یونین کی مشرقی سرحد پر کسی مسلح تنازع کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

روس نے پولینڈ کے نزدیک بیلاروس کی سرحد پر اپنے چھاتہ بردار دستے بھیج دیئے ہیں۔ بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر ہزاروں پناہ گزین اس وقت سخت سردی میں مغربی یورپ میں داخلے کے منتظر ہیں البتہ پولینڈ کی سیکیورٹی فورسز نے انہیں سرحد ہی پر روک رکھا ہے۔

کریملن نے کہا ہے کہ روسی فوجی دستے کی اس اچانک تعیناتی کا مقصد جنگی مشقوں میں حصہ لینا ہے لیکن امریکہ اور یورپ میں اس تعیناتی سے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔ یہ تعیناتی ایسے وقت پر کی جا رہی ہے، جب روسی افواج یوکرین کی سرحد کے قریب بھی جمع کی جا رہی ہیں۔

ماسکو پر الزام ہے کہ وہ اپنے اتحادی بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی مدد کر رہا تاکہ وہ پولینڈ میں پناہ گزینوں کا بحران پیدا کریں۔

وائس آف امریکہ کے جیمی ڈیٹمر کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے اہم عہدیداروں نے نیٹو اتحاد میں شامل ملکوں سے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ روس یوکرین کے کچھ حصوں پر قابض ہونے کی ویسی ہی کوشش کر سکتا ہے، جس طرح اس نے سال 2014 میں کریمیا کے ساتھ الحاق کا اعلان کر کے کیا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے رواں ہفتے کہا تھا کہ "ہم ماسکو کے عزائم کے بارے میں واضح نہیں، لیکن ہم اس کے ہتھکنڈوں سے واقف ہیں، ہماری تشویش یہ ہے کہ روس دوبارہ ویسی ہی سنگین غلطی دوہرانے کی کوشش کر سکتا ہے، جو اس نے 2014 میں کی تھی، کہ اس نے سرحدوں پر فوج جمع کر لی تھی، اور یوکرین کے خودمختار علاقے میں یہ دعوی کرکے جا گھسا تھا کہ اسے اشتعال دلایا گیا ہے"۔

روسی حکام یوکرین کی سرحد پر اپنی فوج جمع کرنے کے الزام کو مسترد کرتے ہیں اور یہ الزام بھی تسلیم نہیں کرتے کہ بیلاروس میں چھاتہ بردار فوجیوں کی تعیناتی کوئی غیر معمولی یا جارحانہ اقدام ہے۔

بیلاروس اور پولینڈ کی سرحد پر ہو کیا رہا ہے؟

یورپی یونین بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو پر الزام عائد کر رہی ہے کہ وہ یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کے ردِ عمل میں پناہ گزینوں کو غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔ صدر لوکاشینکو نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اس وقت دونوں ممالک کی سرحد پر پناہ گزینوں کی موجودگی سے ایک بحران جنم لے چکا ہے جس کی شدت میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق بیلاروس کے پڑوسی ممالک خبردار کر چکے ہیں پناہ گزینوں کا یہ بحران یورپی یونین کی مشرقی سرحد پر کسی مسلح تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔

بحران شروع کیسے ہوا؟

مشرقی یورپ کے ملک بیلاروس میں اگست 2020 کے انتخابات میں وہاں کے مطلق العنان حکمران صدر الیگزینڈر لوکاشینکو چھٹی مرتبہ منتخب ہوئے تھے۔

حزبِ اختلاف نے انتخابی نتائج کو شرم ناک قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور احتجاج شروع کر دیا۔ بیلاروس میں انتخابی نتائج کے لیے احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بیلاروس کے حکام نے احتجاجی مظاہروں کے خلاف سخت کارروائیاں کیں جن میں پولیس نے 35 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔

حزبِ اختلاف کے اس احتجاج کے خلاف بیلاروس کی حکومت کی کارروائیوں کے ردِ عمل میں امریکہ اور یورپی یونین نے لوکاشینکو کی حکومت پر پابندیاں عائد کر دیں۔

کشیدگی مزید بڑھ گئی

پابندیوں کے بعد رواں برس مئی میں ایک اور واقعے نے بیلاروس کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات میں پیدا ہونے والی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔

بیلاروس نے 23 مئی کو یونان سے لتھوینیا جانے والی پرواز کا رُخ موڑ کر اسے اپنے دارالحکومت منسک میں اتار لیا تھا۔ اس طیارے میں صدر لوکاشینکو کی حکومت کے ناقد صحافی رومن پروٹا سیوچ سوار تھے۔ بیلاروس کے حکام نے پرواز سے صحافی پروٹاسیوچ کو حراست میں لیا تھا۔

اس اقدام کے بعد یورپی یونین نے بیلاروس کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دیں اور بیلاروس سے پیٹرولیم مصنوعات، پوٹاش اور کھاد کی اجزا کی درآمدات بھی روک دی ہیں۔ بیلا روس کی برآمدات کا بڑا حصہ ان ہی اشیا پر مشتمل ہے۔

ان پابندیوں کے خلاف صدر لوکاشینکو نے اعلان کیا کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے یورپی یونین کے معاہدے ہر عمل درآمد نہیں کریں گے۔

صدر لوکاشینکو نے مؤقف اختیار کیا کہ یورپی یونین کی پابندیوں کے باعث ان کی حکومت کے پاس پناہ گزینوں کو ٹھیرانے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

اس اعلان کے بعد انہوں نے عراق، شام اور دیگر ممالک سے بیلاروس آنے والے پناہ گزینوں کو پڑوسی ممالک پولینڈ، لتھوینیا اور لٹویا کی جانب بھیجنا شروع کر دیا ہے۔

’اے پی‘ کے مطابق بیلاروس میں حزبِ اختلاف کے ایک رکن پاول لتوشکا نے الزام عائد کیا ہے کہ ریاست کے کنٹرول میں چلنے والی ٹورسٹ ایجنسیز تارکینِ وطن کو سرحدی علاقوں تک پہنچانے میں ملوث ہیں۔

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ صدر لوکا شینکو پناہ گزینوں کو پابندیوں کے خلاف بطور ’مہرہ‘ استعمال کر رہے ہیں۔

صدر لوکاشینکو ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یورپی یونین پناہ گزینوں کو محفوظ راستے کا حق دینے سے محروم کر رہی ہے۔

پڑوسی ممالک کا ردِ عمل

رواں برس موسم گرما میں بیلارس کے پڑوسی ملک لتھوینیا نے پناہ گزینوں کی بڑی تعداد میں آمد کے پیش نظر ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا تھا اور سرحد پر پناہ گزینوں کے لیے کیمپ بھی قائم کر دیے ہیں۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران لتھوینیا کے علاوہ بیلاروس کے دیگر پڑوسی ممالک پولینڈ اور لٹویا میں پناہ گزین سرحدی علاقوں کے جنگلات کے راستے داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رواں ہفتے پولینڈ کی سرحد پر بڑی تعداد میں پناہ گزین جمع ہو چکے ہیں اور بعض نے خار دار تاریں کاٹ کر سرحد عبور کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

پولینڈ کے حکام کا کہنا ہے کہ بیلاروس سے ملحقہ سرحد پر تین سے چار ہزار کے قریب پناہ گزین موجود ہیں اور سینکڑوں لوگوں کو ملک میں داخلے سے روکا جا چکا ہے۔

پولینڈ نے سرحد پر ہنگامہ خیزی پر قابو پانے والی خصوصی پولیس اور دیگر فورسز بھی تعینات کر دی ہیں۔ جب کہ سرحد پر درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی کم ہونے کے باعث اب تک آٹھ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔

مزید سخت اقدامات کا امکان

یورپی یونین نے موجودہ صورتِ حال میں پولینڈ، لتھوینیا اور لٹویا کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق یورپی حکام بیلاروس کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔

یورپی کونسل کے صدر چارلس مچل نے کہا ہے کہ پہلی مرتبہ سرحدوں پر رکاوٹیں اور باڑ لگانے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔

اس تحریر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہے۔