پاکستان میں حکومت نے اپوزیشن کے شدید اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے اہم قوانین کی منظوری دی ہے جس پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان قوانین کو اتفاقِ رائے سے منظور کرنا زیادہ بہتر ہوتا۔
مبصرین کے مطابق حکومت کے الیکشن سے متعلق قانون سازی میں حزبِ اختلاف کے تحفظات کو دور نہ کرنا ملک کے سیاسی ماحول اور عام انتخابات پر منفی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
حکومت نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے حزبِ اختلاف کے تحفظات کے باوجود بدھ کو انتخابی اصلاحات سمیت درجنوں قوانین کی منظوری لی تھی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت مشترکہ اجلاس کے ذریعے عام انتخابات سے متعلق قانون سازی سمیت متعدد بلوں کی منظوری سے حزبِ اختلاف کا دباؤ کم کرنے میں کامیاب دیکھائی دیتی ہے تاہم یہ کامیابی وقتی ثابت ہوگی۔
اس حوالے سے تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومت پر دباؤ میں وقتی کمی آئے گی البتہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت و اپوزیشن کے تعلقات جو پہلے سے خراب ہیں مشترکہ اجلاس کے بعد یہ مزید خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جمہوریت کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ اتفاق رائے ہو۔ خاص طور پر انتخابات کے حوالے سے قانون سازی کثرت رائے کے بجائے متفقہ ہونی چاہیے جو کہ ماضی کی روایت بھی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جو اختلافات تھے وہ فی الوقت کم ہوئے ہیں البتہ اس میں آئندہ بھی اتار چڑھاؤ کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حکومت کی حکمتِ عملی پر صحافی اور تجزیہ کار افتخار احمد کہتے ہیں کہ حکومت کو اہم قانون سازی کے حوالے سے حزبِ اختلاف کے خدشات کو دور کرنا چاہیے تھا جو کہ نہیں کیا گیا۔ ان کے بقول اس عمل سے آئندہ عام انتخابات ابھی سے متنازع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت یک طرفہ اقدامات کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں میں اختلافات کم ہوں گے اور وہ مشترکہ طور پر سخت اقدامات اٹھانے کی طرف جائیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کے رویے کو دیکھتے ہوئے حزبِ اختلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر حکومت مخالف اقدامات میں تیزی لائے گی اور اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ میں شدت پیدا ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت مخالف تحریک میں لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
انتخابی اصلاحات سے متعلق قانون سازی پر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کے تحفظات کو یکسر نظر انداز کرنے سے حکومت پر تنقید کا سلسلہ بڑھ جائے گا۔ حکومت پر وقتی طور پر تو دباؤ ٹل گیا ہے البتہ مستقل بنیادوں پر حکومت کو کارگردگی کا سہارا لینا ہو گا اور کارگردگی کی بنیاد پر ہی مستقبل میں اسٹیبلشمنٹ کے رویے کا ادراک ہوگا۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت مہنگائی میں کمی اور حکمرانی میں بہتری لے آئے تو یہ دباؤ مستقل ٹل سکتا ہے ورنہ کچھ عرصے میں کسی نہ کسی صورت اسے دوبارہ اٹھتا دیکھیں گے۔
حزب اختلاف کے لانگ مارچ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کا تعین دسمبر کے سیاسی حالات پر منحصر ہو گا کیوں کہ ہر جماعت کے اپنے مفادات اور حکمت عملی ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن فوری طور پر حکومت کا خاتمہ چاہتے ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) نئے انتخابات چاہتی ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی حکومت کا خاتمہ تو چاہتی ہے مگر نظام کا چلتے رہنا اس کے مفاد میں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حزب اختلاف جماعتوں کے آپس کے اختلافات کے حوالے سے سوال پر افتخار احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حزبِ اختلاف اکھٹی رہے گی کیوں کہ حکومت کے خلاف شہباز شریف کے مقابلے میں بلاول بھٹو زرداری زیادہ جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے تھے۔