عراق کے دارالحکومت بغداد ميں امريکی ڈرون حملے ميں ايرانی جنرل قاسم سليمانی کی ہلاکت کے بعد امريکہ اور ايران کے درميان کشيدگی ميں اضافہ ہو گيا ہے۔
ايران نے اس ضمن ميں عراق ميں تعينات امريکی فوجيوں کے ٹھکانوں پر درجن سے زائد بيلسٹک ميزائلوں سے حملہ کيا ہے اور اسے جنرل سليمانی کی ہلاکت کا بدلہ قرار ديا ہے۔
قاسم سلیمانی کی موت کے بعد امريکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاويد باجوہ سے ٹيلی فون پر رابطہ کیا اور خطے کی صورت حال پر بات چيت کی۔
ماہرين کے مطابق ايران اور امريکہ کے درميان کشيدگی بڑھنے کی صورت ميں پاکستان کو امريکہ اور خليجی ممالک کے ممکنہ دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ 2001 ميں امريکی تنصيبات پر القائدہ کے حملوں کے فوری بعد امريکہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ يا تو امريکہ کا ساتھ دے يا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تيار ہو جائے۔
پاکستانی وزيرِ خارجہ شاہ محمود قريشی نے حال ہی میں سينٹ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کيا تھا کہ پاکستان کی سر زمين کسی بھی رياست کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور نہ ہی پاکستان کسی علاقائی تنازع کا فريق بنے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
قائد اعظم يونيورسٹی کے ريٹائرڈ پروفيسر اور بين الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رفعت حسين کے مطابق اس وقت خطے کے حالات ايسے ہيں جس ميں پاکستان کی مجبوری ہے کہ وہ اس تنازع ميں غير جانب دار رہے۔
اُن کے بقول، کسی ايک جانب جھکاؤ سے پاکستان کے قومی مفاد کو کافی نقصان پہنچے گا۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر رفعت حسین نے کہا کہ اگرچہ بعض خليجی ممالک اور امريکہ کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ضرور ہوگا ليکن اس کے باوجود پاکستان نے ايرانی جنرل کی ہلاکت کی شديد مذمت کی ہے۔
خليجی ممالک کے پاکستان پر ممکنہ دباؤ کے سوال پر انہوں نے کہا کہ "اگر پاکستان کی اقتصادی حالت قدرے بہتر ہوتی تو وہ سعودی عرب کی جانب سے آنے والے دباؤ کو کچھ اور انداز ميں ہينڈل کرنے کی پوزيشن ميں ہوتا۔"
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے ايرانی ليڈروں کو کسی بھی قسم کا پيغام نہیں بھيجا۔ ان کے مطابق اگر کسی بھی سطح سے امريکہ اور ايران کے درميان حالات خراب ہوتے ہيں تو ان کی نظر ميں امريکہ کو پاکستان کی بہت کم ضرورت درکار ہوگی کيونکہ ايران کے چاروں اطراف میں یعنی بحرين، قطر، افغانستان اور عراق ميں نہ صرف امريکی فوجی اڈے ہيں بلکہ وہاں فوجی بھی تعينات ہيں۔
پاکستان ميں تعينات ايک ايرانی سفارت کار جنہوں نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جنرل قاسم سليمانی کی ‘شہادت’ پر گو کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بہت محتاط رويہ سامنے آيا ہے۔ تاہم عوام، ميڈيا، سماجی اور مذہبی شخصيات نے نہ صرف ايرانی کمانڈر کے قتل کی مذمت کی بلکہ اجتماعی سوگ اور جنازوں ميں بھی شرکت کی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور ديگر شہروں ميں بڑی تعداد ميں پاکستانی اور کشميری عوام نے جنرل سليمانی اور ابو مہدی المھندس کے بينرز اور تصاوير اٹھائے ہوئے مختلف مقامات پر ريلياں نکاليں۔
SEE ALSO: 'پاکستان کسی علاقائی تنازع کا حصہ نہیں بنے گا'ايرانی سفارت کار کے مطابق اُنہيں اس بات کا بہ خوبی اندازہ ہے کہ پاکستان نے اپنی اقتصادی ضروريات کو پورا کرنے کے لیے چند ممالک اور تنظيموں سے مالی امداد بھی لی ہے اور اس کے لیے شاید اسے ان ممالک کی اطاعت بھی کرنا پڑے جس سے اس کی آزاد خارجہ پاليسی ميں رکاوٹيں بھی پڑيں گی۔
اُن کے مطابق کچھ اسی طرز کا واقعہ کوالالمپور کانفرنس کے موقع پر بھی سامنے آيا تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ملائيشيا ميں مسلم ممالک کے مسائل پر بات کرنے کے لیے کوالالمپور سربراہ اجلاس ميں ترکی، ايران اور قطر سميت مختلف ممالک کے سربراہان نے شرکت کی تھی۔
اجلاس ميں پاکستانی وزيرِ اعظم عمران خان نے بھی شرکت کرنا تھی تاہم پاکستانی وزيرِ اعظم کو مبينہ طور پر سعودی عرب کے دباؤ پر اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔
ايرانی سفارت کار کے مطابق پاکستان اور ايران ہمسايہ ممالک ہيں اور ايک دوسرے کے سيکیورٹی معاملات سے بہ خوبی واقف ہيں۔
انہوں نے پاکستانی فوج کے اس بيان کی پزيرائی کی جس ميں انہوں نے پاکستانی سر زمين ايران کے خلاف استعمال نہ ہونے کی يقين دہانی کی۔
آصف خان درانی نے بطور سفارت کار سال 2016 سے 2018 تک ايران ميں اپنی ذمہ دارياں نبھائيں۔ اس سے قبل وہ 2013 سے 2016 تک متحدہ عرب امارات ميں پاکستانی سفير رہے اور خطے کی صورت حال کا وسيع تجربہ رکھتے ہيں۔
اُن کے مطابق پاکستان اور ايران کے شروع سے ہی اچھے تعلقات رہے ہيں۔ اگرچہ بعض امور پر دونوں ممالک کے درمیان ماضی ميں اختلافات سامنے آئے۔ ليکن خوش آئند بات يہ ہے کہ یہ کبھی کسی بڑے تنازع ميں نہیں اُلجھے اور يہی ہمارے تعلقات کا سب سے اہم پہلو ہے کہ پاکستان اور ايران کے درميان کوئی تنازع نہیں ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے آصف خان درانی نے بتايا کہ پاکستان کو اس سارے معاملے ميں کسی کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے کيوں کہ ايران ہمارا ہمسايہ اور سعودی عرب برادر ملک ہے اور دونوں ممالک نے مشکل حالات ميں ہماری مدد کی ہے۔
SEE ALSO: 'پاکستان کی سر زمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی'ماہرين کے مطابق سعودی اور اماراتی مالی امداد کے پيش نظر اس ممکنہ تنازع ميں پاکستان کا جھکاؤ ايران کے مخالف ہی ہوگا تاہم آصف خان درانی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
آصف درانی کے بقول، خليجی ممالک پاکستان کو امداد دے رہے ہيں خيرات نہیں۔ اگرچہ پاکستان اقتصادی طور پر کمزور ضرور ہے لیکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہیں کہ سب کچھ بيچ دے۔
اُن کے مطابق پاکستان ايک خودمختار اور ذمہ دار ملک ہے اور اس کا عملی مظاہرہ پاکستان يمن کی جنگ کے دوران کر چکا ہے۔
ياد رہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے يمن ميں حوثی باغيوں کے خلاف تعاون کی درخواست کی تھی جسے پاکستان کے دونوں ايوان نے مسترد کرتے ہوئے غير جانبدار رہنے کا فيصلہ کيا تھا۔
آصف خان درانی کے مطابق پاکستان خليجی ممالک سے کچھ معاہدے ضرور رکھتا ہے ليکن ان کے لیے کسی تيسرے ملک ميں اپنی افواج نہیں تعينات کر سکتا۔ ان کے مطابق پاکستان کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ صورت حال کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے۔