پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر چار روزہ سرکاری دورے پر چین میں موجود ہیں۔ ماہرین پاکستان کو درپیش معاشی صورتِ حال اور خطے کے حالات کے پیشِ نظر اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
دورے کے دوران آرمی چیف نے پیپلز لبریشن آرمی ہیڈ کوارٹر میں دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون بڑھانے کے حوالے سے بات چیت کی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق آرمی چیف کا یہ دورہ صدر شی جن پنگ کے تیسرے دور صدارت کے آغاز پر اہم ہے جس میں دونوں ملک عالمی تبدیلیوں کے تناظر میں اہم فیصلے کرسکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستانی معیشت پر دباؤ کم کرنے میں چین اپنا کردار ادا کرے گا اور اس دورے میں ان امور پر بھی بات چیت ہوسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق چین پاکستان کو ہمیشہ مشکل حالات میں مشورہ ضرور دیتا ہے لیکن ان مشوروں پر زبردستی عمل کروانے کی کوشش نہیں کرتا۔
پاکستان فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر دورے کے پہلے روز پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے ہیڈ کوارٹرز پہنچے جہاں انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔اس کے بعد پی ایل اے کے کمانڈر کے ساتھ ان کی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ ملاقات میں باہمی سلامتی کے امور اور فوجی تعاون پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
ترجمان کے مطابق دونوں فوجی کمانڈروں نے خطے میں امن و استحکام برقرار رکھنے اور فوجی تعاون بڑھانے کی ضرورت کا اعادہ کیا۔
'اس دورے کا انتظار تھا'
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ یہ دورہ نہ صرف اقتصادی طور پر بلکہ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے اہم ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کے دورۂ چین کا انتظار کیا جا رہا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ امکان ہے کہ سعودی عرب اور ایران تعلقات کے تناظر اور افغانستان کے حوالے سے اہم بات چیت ہوسکتی ہے۔ امید ہے کہ اس دورے کے نتائج بہت اچھے ہو سکتے ہیں۔
نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ اس وقت عالمی سطح پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور بلاکس کی جگہ مختلف گروپس بن رہے ہیں جو خطوں کی سطح پر کام کررہے ہیں۔
اُن کے بقول ایسے میں بہت سے ممالک امریکہ سے دور ہورہے ہیں اور چین کے قریب ہورہے ہیں لہذا پاکستان کو بھی ایسے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ لانگ ٹرم فائدہ دیکھتے ہوئے اپنا فیصلہ کرے۔
سابق فوجی جنرل کہتے ہیں کہ "اس وقت امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے جو ہمارے مفاد کے خلاف ہے، اسی طرح افغانستان میں وہ طالبان کی حکومت نہیں چاہتے، یہ بھی ہمارے مفاد کے خلاف ہے۔"
اقتصادی معاملات میں چین کی مدد کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی ادارے بڑی طاقتوں کے آلۂ کار کے طور پر کام کرتے ہیں ، چین بھی پاکستان کو مشکلات سے نکالنا چاہتا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے وقتی مفادات کو دیکھنے کے بجائے لانگ ٹرم مفاد پر توجہ دینی چاہیے۔
دورہ سی پیک کے لیے اہم
سابق سفارت کار علی سرور نقوی کہتے ہیں کہ آرمی چیف کا دورہ دونوں ممالک کی افواج کے لیے بہت اہم ہے اور خاص طور پر اس میں سی پیک سمیت مختلف منصوبوں پر پاکستان میں کام کرنے والی چینی شہریوں کے سیکیورٹی کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی کیوں کہ چین ماضی میں اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتا رہا ہے۔
تجزیہ کار اور صحافی فرحان بخاری کہتے ہیں کہ آرمی چیف اگرچہ لینڈ فورسز کے سربراہ ہیں لیکن پاکستان کے دفاعی معاملات میں ان کا اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔
اُن کے بقول اس دورے میں امکان ہے کہ پاکستانی بحریہ کے لیے بننے والی آٹھ آبدوزوں کا معاملہ بھی آئے جن میں سے چار چین اور چار پاکستان میں بننا تھی۔
اس کے علاوہ پاکستان نے 25 جے ٹین طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جن میں سے اب تک صرف 12 پاکستان کو موصول ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بری فوج کے لیے ٹینکس سمیت کئی ہتھیاروں کے حوالے سے بھی بات چیت ہوسکتی ہے۔
فرحان بخاری کا کہنا تھا کہ خطے کی صورتِ حال بھی اس وقت بہت زیادہ اہم ہے کیوں کہ چین اور بھارت کے درمیان تعلقات معمول پر نہیں آئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اور چین کی دیرینہ دوستی ہے لہذا اس کا فائدہ پاکستان کو ہوسکتا ہے۔
فرحان بخاری کہتے ہیں کہ یہ روایت رہی ہے کہ چین مشکل حالات میں پاکستان کو مشورہ ضرور دیتا ہے اور اس کا تذکرہ میڈیا میں نہیں کیا جاتا۔
اُن کے بقول چین پاکستان کو مستحکم کرنے کے حوالے سے ضرور بات کرے گا، اس وقت چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان جو مذاکرات کروائے اور تعلقات کو بہتر بنایا اس سے خطے میں چین کا اثرورسوخ نظر آرہا ہے۔
فرحان بخاری کہتے ہیں کہ چین خطے میں اہم کردار ہے اور بڑے بڑے معاملات کو حل کروانے کی کوشش کررہا ہے اور پاکستان ایسے میں چین کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔