امریکہ میں آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں کروڑوں ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ماہرین کے مطابق امریکی معیشت، اسقاطِ حمل کا معاملہ, گن کنٹرول اور خارجہ پالیسی ان انتخابات میں ووٹرز کی توجہ کا مرکز رہیں گے۔
اگرچہ ان انتخابات کو امریکہ کے صدارتی انتخاب جیسی توجہ حاصل نہیں ہوتی لیکن حکومتی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرنے میں یہ انتخابات انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
ان انتخابات میں ایوانِ نمائندگان کے تمام 435 اور سینیٹ کے ایک تہائی ارکان کا انتخاب کیا جائے گا۔ یہ انتخابات امریکی سیاست میں کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں ؟ اسے سمجھنے کے لیے امریکہ میں ریاست کا آئینی ڈھانچہ سمجھنا ضروری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انتخابات ہر دو برس بعد نومبر میں ہر پہلی پیر کے بعد آنے والے منگل کے روز ہوتے ہیں۔
ریاست کا آئینی ڈھانچہ
امریکی آئین کے مطابق مقننہ یعنی قانون بنانے والا ادارہ (کانگریس)، انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کی تین شاخیں ہیں۔
صدر انتظامیہ کا سربراہ ہوتا ہے اور اس کا انتخاب ہر چار سال بعد ہوتا ہے۔ صدر کی نامزدگی پر امریکہ کی سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کی جاتی ہے جن کی منظوری سینیٹ سے حاصل کی جاتی ہے۔ ان ججز کی تعداد نو مقرر ہے۔ قانون سازی، اہم انتظامی تقرریوں اور معاہدات کی توثیق وغیرہ جیسے اہم امور ان ایوانوں میں طے کیے جاتے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان مالیاتی امور، ٹیکسیشن سمیت دیگر قوانین سے متعلق بل پیش کرنے، وفاقی عہدے داروں کے مواخذے جیسے اہم اختیارات رکھتا ہے۔ جب کہ تجارتی اور دیگر بین الاقوامی معاہدوں کی توثیق اور صدر کی جانب سے نامزدگیوں کی توثیق سینیٹ کرتی ہے۔
کانگریس کے دو ایوان
کانگریس، سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان (ہاؤس آف رپریزنٹیٹیو) پر مشتمل ہوتی ہے۔
قانون سازی کے لیے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان دونوں کی اہمیت ہے۔ کسی بھی قانون سازی کے لیے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ سے تائید حاصل ہونا ضروری ہے جس کے بعد منظور ہونے والے قانون کو صدر کو توثیق کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔
سینیٹ میں امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں کو یکساں نمائندگی حاصل ہے۔ ہر ریاست کی نمائندگی دو سینیٹرز کرتے ہیں۔سینیٹ میں نمائندگی کا ریاست کی آبادی یا رقبےسے کوئی تعلق نہیں ہے۔
SEE ALSO: امریکہ میں آئندہ وسط مدتی انتخابات گزشتہ صدارتی انتخاب کا تسلسل بنتے جا رہے ہیں، مبصرینسینیٹرز کوبراہِ راست انتخاب کے ذریعے چھ برس کے لیے منتخب کیا جاتا ہے تاہم ہر دو سال بعد وسط مدتی انتخاب میں سینیٹ کی ایک تہائی نشستوں پر الیکشن ہوتے ہیں۔ سینیٹرز کے حلقہ انتخاب کا تعین جغرافیائی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ سینیٹ کے مجموعی ارکان کی تعداد 100 ہوتی ہے۔
ہر بار ایک تہائی سینیٹرز کی کا انتخاب از سر نو ہوتا ہےا س لیے مدت مکمل ہونے کے اعتبار سے سینیٹرز کی تین کلاسز بنائی جاتی ہیں۔ ان میں سے کلاس اول اور دوم میں 33 ، 33 سینیٹرز ہیں جب کہ کلاس سوم میں 34 سینیٹرز شامل ہیں۔
اس برس چوں کہ کلاس سوم کے سینیٹرز کے اتنخاب کی باری تھی اس لیے وسط مدتی اتنخابات میں 34 سینیٹرز کا انتخاب ہوگا۔
اس کے علاوہ ایک سینیٹر کے مستعفی ہونے اور نائب صدر کاملا ہیرس کی خالی ہونے والی نشست پر بقیہ مدت پوری کرنے کے لیے دو سینیٹرز کا اسپیشل الیکشن بھی ہوگا۔
ایوانِ نمائندگان کے ارکان کی تعداد 435 مقرر ہے اور یہاں ہر ریاست کو اس کی آبادی کے اعتبار سے نمائندگی دی گئی ہے۔
امریکہ میں ہر دس سال بعد ہونے والی مردم شماری کی بنیاد پرریاستوں کے لیے نمائندگان کی تعداد کم یا زیادہ ہوجاتی ہے البتہ آئین میں ایوان کےارکان کی تعداد 435 مقرر کردی گئی ہے۔
ایوان نمائندگان کے ارکان ریاستوں میں آبادی کے اعتبار سے بنائے گئے ’ڈسٹرکٹ‘ سے منتخب ہوتے ہیں جو انتخابی حلقوں کی طرح ہوتے ہیں۔
وسط مدتی انتخابات کے نتائج کا اعلان مختلف ریاستوں میں مختلف اوقات میں کیا جاتا ہے۔ کامیاب ہونے والے کانگریس کے ارکان تین جنوری 2023 سے اپنی ذمےد اریاں ادا کرنا شروع کریں گے۔
نمائندگی میں توازن
امریکہ کی ریاستوں میں جغرافیے اور آبادی کے اعتبار سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لیکن قانون سازی میں تمام ریاستوں کو متوازن نمائندگی کے لیے سینیٹ میں برابر نمائندگی دی گئی ہے تاہم ایوانِ نمائندگان میں آبادی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
مثال کے طور پر امریکہ میں سب سے کم آبادی ریاست وائیومنگ کی ہے اور سب سے زیادہ رقبہ رکھنےوالی ریاست الاسکا ہے۔ جب کہ کیلی فورنیا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے۔ سینیٹ میں ان تینوں ریاستوں کی نمائندگی برابر ہے یعنی ان سے دو دو سینیٹر منتخب کیے جاتے ہیں۔
لیکن ایوانِ نمائندگان میں وائیومنگ اور الاسکا سے ایک ایک جب کہ کیلی فورنیا سے 52 نمائندگان منتخب ہوکر آتے ہیں کیوں کہ یہاں نمائندگی کا پیمانہ آبادی ہے۔ اس طرح رقبے اور آبادی کے فرق کو سینیٹ میں یکساں نمائندگی سے متوازن کیا گیا ہے۔
ایوانِ نمائندگان میں 435 ارکان کے علاوہ ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سمیت پانچ علاقوں کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں البتہ انہیں قانون سازی یا تقرریوں کی توثیق وغیرہ کے لیے ووٹ کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
SEE ALSO: امریکہ میں وسط مدتی انتخاب سے پہلے سوشل میڈیا کمپنیاں تبدیلیاں لانے لگیںکانگریس میں نمائندگی کی موجودہ صورتِ حال
امریکہ میں صدر کا انتخاب چار سال کی مدت کے لیے ہوتا ہے جب کہ ایوانِ نمائندگان کے اراکین دو سال کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ الیکشن چوں کہ صدارتی انتخاب کے دو برس بعد اور آئندہ صدارتی الیکشن سے دو برس پہلے منعقد کیا جاتا ہے اس لیے اسے مڈ ٹرم یا وسط مدتی انتخاب کہا جاتا ہے۔
قانون سازی کے لیے سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان دونوں کی اہمیت ہے۔ کوئی بھی قانون سازی پہلے ایوانِ نمائندگان سے منظور ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد سینیٹ سے اسے تائید حاصل ہونا ضروری ہے جس کے بعد یہ صدر کو توثیق کے لیے بھیج دی جاتی ہے۔
صدر کے پاس کانگریس سے منظور شدہ قانون کو ویٹو کرنے کا اختیار بھی ہوتا ہے تاہم کانگریس کی دو تہائی اکثریت صدر کے ویٹو کو غیر مؤثر کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ایوانِ نمائندگان مالیاتی امور، ٹیکسیشن سمیت دیگر قوانین سے متعلق بل پیش کرنے، وفاقی عہدے داروں کے مواخذے جیسے اہم اختیارات رکھتا ہے۔ غیر ملکی تجارتی معاہدوں کی توثیق بھی اس ایوان سے لینا ضروری ہوتا ہے۔
اس وقت ایوانِ نمائندگان میں حکمران جماعت ڈٰیموکریٹک پارٹی کے 220 اور ری پبلکن پارٹی کے 212 ارکان ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی اس عددی برتری کے ساتھ ایوانِ نمائندگان سے قوانین منظور کرا سکتی ہے۔
سو رکنی سینیٹ میں دونوں کے پچاس پچاس سینیٹر ہیں۔ آئین کے مطابق نائب صدر کو سینیٹ کی سربراہی حاصل ہوتی ہے۔ اس وقت امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس دو پارٹیوں کی یکساں نمائندگی رکھنے والی سینیٹ کی سربراہ ہیں اور کسی بھی معاملے پر ووٹ برابر یا ٹائی ہونے کی صورت میں وہ صرف ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے اپنا ووٹ استعمال کرسکتی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
صدر اور حکمران جماعت کے لیے اہمیت
امریکہ کے آئین میں اختیارات کی تقسیم کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اداروں کی تشکیل میں بھی خاص خیال رکھا گیا ہے۔صدر اور ان کی جماعت جن پالیسیوں کی حمایت اور پرچار سے انتخابات میں کامیاب ہوتے ہیں ان پر عمل درآمد کے لیے انہیں قانون سازی، مالی وسائل اور فیصلہ سازی کے دیگر کئی امور میں کانگریس کی تائید درکار ہوتی ہے۔
وسط مدتی انتخابات میں اگر ایوانِ نمائندگان میں صدر کی جماعت کو اکثریت حاصل نہ ہو تو اسے اپنی پالیسی پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہی معاملہ سینیٹ کا بھی ہے۔
اگرچہ وسط مدتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ صدر کے انتخاب کے مقابلے میں کم ہوتا ہے تاہم اسے صدر کی کارکردگی اور پالیسیوں پر ریفرنڈم قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حالیہ تاریخ میں کسی بھی صدر کے پہلے دور میں ہونے والے مڈ ٹرم الیکشن میں حکمران جماعت کی نشستوں میں کمی دیکھی گئی ہے۔
اگر آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں اگر ڈیمو کریٹک پارٹی کے مقابلے میں ری پبلکن زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں توایوان میں قانون سازی کی سمت کا تعین کرنے کا اختیار انہیں مل جائے گا۔
اس وقت ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر بائیڈن اور ان کی جماعت کی ترجیحات میں ماحولیاتی تحفظ، اسقاطِ حمل تک رسائی اور اسلحہ پر کنٹرول کے لیے قانون سازی جیسے امور شامل ہیں۔ جب کہ قدامت پسند نظریات کی حامل جماعت ان امور پر مختلف مؤقف رکھتی ہے۔
رواں برس جون میں امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاطِ حمل کے حق سے متعلق 1973 کے میں دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اسقاطِ حمل سے متعلق مشہور زمانہ 'رو بنام ویڈ' فیصلے میں اسقاطِ حمل کو قانونی عمل قرار دیا گیا تھا۔ تاہم اعلیٰ عدالت نے اس حق کو اب ختم کر دیا ہے جس کے بعد اب مختلف ریاستیں انفرادی سطح پر اسقاطِ حمل کے طریقۂ کار پر پابندی لگانے کے قابل ہو گئی ہیں۔اس فیصلے کے بعد سے مڈ ٹرم انتخابات میں اسقاطِ حمل کے حق سے متعلق قانونی سازی اہم انتخابی موضوع بن چکا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ کے سابق صدر ٹرمپ کی کیپٹل ہل حملوں کے لیے جوابدہی سے متعلق بھی یہ انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
ڈیموکریٹس کی اکثریت رکھنے والا ایوانِ نمائندگان چھ جنوری 2021 کو امریکہ کے دارالحکومت میں کانگریس سمیت اہم حکومتی دفاتر پر حملوں کے لیے سابق صدر ٹرمپ کو جوابدہ بنانا چاہتا ہے جنہوں نے اس وقت کے صدارتی انتخاب میں بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کیے تھے۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق مڈ ٹرم انتخاب میں ممکنہ طور پر منتخب ہونے والے ری پبلکنز کی بڑی تعداد پہلی مرتبہ ایوان کی رکن بنے گی۔ ان میں زیادہ تر لوگ ٹرمپ کے حامی ہیں اور ان کے اندازِ سیاست کو اپنے لیے مثالی تصور کرتے ہیں۔
ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے علاوہ وسط مدتی انتخابات میں 36 ریاستوں میں گورنرز اور کئی ریاستوں کے قانون ساز ایوانوں کے انتخابات بھی ہوں گے۔
ریاستی سطح پر ہونے والے ان انتخابات کی اہمیت کانگریس کے لیے جاری الیکشن جتنی تو نہیں لیکن کیوں کہ امریکہ میں زیادہ قانون ریاستی سطح ہی بنائے جاتے ہیں اس لیے ان انتخابات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔بہت سی ریاستوں میں مستعفی یا نشست خالی کرنے والے نمائندگان کے ’اسپیشل الیکشن‘ بھی اس وسط مدتی اتنخاب میں ہوتے ہیں۔
مختلف ریاستوں میں نافذ مختلف قوانین کے مطابق کئی ریاستوں میں مڈٹرم الیکشن کے لیے بھی قبل از وقت ووٹ دینے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اورکئی ریاستوں میں ڈاک کے ذریعے بھی ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔ ان سہولتوں کا استعمال کرتے ہوئے کئی ریاستوں میں ووٹرز کی بڑی تعداد انتخاب کے دن سے پہلے ہی اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرلیتے ہیں۔
اہم نکتہ
امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کانگریس کا کردار اسے پارلیمانی طرزِ حکومت سے مختلف بنانے والے بنیادی نکات میں شامل ہے۔
بھارت یا پاکستان جیسی پارلیمانی جمہوریت میں ملک کا منتظم اعلیٰ وزیرِ اعظم ہوتا ہے۔ اسے پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں اکثریت حاصل ہونا ضروری ہے کیوں کہ یہ ایوان (قومی اسمبلی یا لوک سبھا) ہی اسے اس منصب کے لیے منتخب کرتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ کے نظامِ حکومت میں صدر کا انتخاب ہر چار سال بعد ہونے والے انتخاب میں ہوتا ہے جس میں ووٹرز براہ راست اپنا ووٹ دے کر اس الیکٹورل کالج کا انتخاب کرتے ہیں جس نے صدر کا اتنخاب کرنا ہوتا ہے۔ صدر منتخب ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ صدارتی امیدوار یا ان کی جماعت کو کانگریس میں عددی برتری حاصل ہو۔
اس صورت میں عین ممکن ہے کہ صدر کے انتخاب کے بعد وسط مدتی الیکشن میں اس کی جماعت ایوانِ نمائندگان میں اکثریت نہ رکھتی ہو لیکن اس کے باوجود اس کی حکومت برقرار رہتی ہے۔ البتہ قانون سازی اور فیصلہ سازی میں اسے رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔