پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے پہلے سرکاری دورۂ امریکہ کو علاقائی صورتِ حال کے تناظر میں اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ دورے کے دوران آرمی چیف اعلٰی امریکی عہدے داروں سے ملاقاتیں کریں گے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ رہے ہیں اور امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد اب پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بظاہر گرم جوشی باقی نہیں رہی ہے۔
لیکن دفاعی امور کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تمام صورتِ حال کے باوجود پاکستان اور امریکی فوج کے تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں۔ اگر کبھی ان تعلقات میں کوئی دوری بھی پیدا ہوئی تو پینٹاگان اور جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے اس کو دور کیا۔
جنرل عاصم منیر ایک ایسے وقت میں امریکہ کا دورہ کر رہے ہیں جب پاکستان کو اقتصادی، سیاسی اور سیکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔
جنرل عاصم مینر کے دورۂ امریکہ سے قبل امریکی نمائندۂ خصوصی برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
آرمی چیف کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جنرل عاصم منیر نے جو غیر ملکی دورے کیے ان میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت ،برطانیہ اور چین شامل ہیں۔
پاک امریکہ تعلقات اور جنرل عاصم منیر کا دورہ
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ یہ دورہ اس لیے مختلف ہے کہ عموماً پاکستانی فوج کے سربراہ تعیناتی کے فوری بعد چین اور امریکہ جاتے ہیں۔ آرمی چیف نے چین کا دورہ تو کر لیا، لیکن امریکہ کا دورہ ایک برس بعد کر رہے ہیں۔
سعد محمد کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ اور پاکستان کے درمیان ظاہری طور پر حالات کشیدہ ہوں تو بھی پاکستان کے جی ایچ کیو اور پینٹاگان کے درمیان رابطہ برقرار رہتا ہے۔ یہ دونوں ادارے ہی دونوں ملکوں کے درمیان سردمہری کو کم کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ بطور آرمی چیف پہلا دورہ ہونے کی وجہ سے فی الحال اس کے نتائج پر تبصرہ نہیں کیا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وہاں ہونے والی ملاقاتوں اور ان کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کیا رُخ اختیار کر رہے ہیں۔
اُن کے بقول یہ بات اہم ہے کہ جب بھی کوئی نیا آرمی چیف بنتا ہے تو اس کا ایک دورہ امریکہ لازم ہوتا ہے۔
امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دفاعی سازوسامان کی فراہمی کا معاملہ
پاکستان کی دفاعی ضروریات کے حوالے سے لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے کہا کہ پاکستان کے پاس امریکی ایف سولہ جہاز استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بحریہ کی مختلف ضروریات کے لیے بھی ہمارا انحصار امریکہ پر ہے۔ پاک امریکہ تربیتی پروگرامز بھی عرصہ دراز سے بند ہیں۔ لہذا امکان ہے کہ پاکستان کی دفاعی ضروریات کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کہتے ہیں کہ اگرچہ پاکستان کا بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی خریداری کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ لیکن پاکستانی فوج کے زیرِ استعمال اسلحے اور سازو سامان کی مرمت کے لیے امداد کی توقع ضرور رکھی جائے گی۔
'افغانستان کی صورتِ حال سرِفہرست ہو گی'
لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معیشت ہے، امید ہے کہ دورہ امریکہ میں اس بارے میں بات ہو گی اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ جاری پاکستان کے اہم مسائل پر بات ہو گی۔
جنرل نعیم کے مطابق دورۂ امریکہ کے دوران غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی ملک بدری کا معاملہ بھی زیرِ بحث آ سکتا ہے، اس کے علاوہ پاک، چین تعلقات اور پاک روس تعلقات بھی زیرِ بحث آ سکتے ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) سعد محمد کے مطابق اس دورے میں افغانستان کے معاملے پر خصوصی طور پر بات چیت ہو گی۔ افغانستان میں جو دہشت گرد گروپ ابھی تک فعال ہیں ان پر بات چیت ہو گی۔
اُن کے بقول خاص طور پر پاکستان مخالف عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکسان کی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے امریکی تعاون پر بات ہو گی۔
لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ نعیم لودھی کے مطابق آرمی چیف کے دورے کے دوران پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتِ حال پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔
اُن کے بقول پاکستان میں اس وقت جو صورتِ حال ہے اس بارے میں بہت سے ملکوں کو تشویش بھی ہے، ساتھ ہی کچھ عرصے میں پاکستان میں نئے انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے۔ لہذا امکان ہے کہ ملک کے اندرونی سیاسی حالات کے بارے میں بھی بات کی جائے گی۔