|
اسلام آباد _ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف منگل سے چار روزہ دورے پر چین روانہ ہو رہے ہیں جہاں وہ ہمسایہ ملک کی قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے دوسرے فیز کے منصوبوں کے باضابطہ آغاز کی تقریب میں شرکت کریں گے۔
چینی صدر شی جن پنگ کی دعوت پر وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ہمراہ بیجنگ جانے والے وفد میں وفاقی وزرا، صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور کاروباری افراد کے وفود بھی ہوں گے۔
وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد شہباز شریف کا یہ پہلا دورۂ چین ہو گا جس کے دوران وہ بیجنگ کے علاوہ دو شہروں گوانگڈونگ اور شانگزی بھی جائیں گے۔
خطے کے بدلتے حالات اور اقتصادی مشکلات سے نکلنے کے لیے شہباز شریف کے دورۂ چین کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کے وزیرِ اعظم کے دورۂ چین کو مشترکہ ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بتایا ہے کہ پاکستانی وزیرِ اعظم شہباز شریف دورے میں صدر شی جن پنگ اور وزیرِ اعظم لی کی چیانگ سے ملاقاتیں کریں گے۔
شہباز شریف کے دورے سے پہلے پاکستان کے وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے 13 سے 16 مئی کو چین پاکستان وزرائے خارجہ کے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے پانچویں دور کے لیے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
'پاکستان جیو پالیٹکس سے جیو اکنامکس کی طرف جا رہا ہے'
چین میں پاکستان کی سابق سفیر نغمانہ ہاشمی کہتی ہیں کہ چین اور پاکستان کے تعلقات جس نوعیت کے ہیں اس میں قیادت کا آپس میں تواتر سے ملنا ایک عام بات ہے اور خاص طور پر جب نئی حکومت آتی ہے تو وہ ضرور مل کر باہمی مسائل پر گفت و شنید کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ایک جامع دورہ ہو گا جس میں خطے و عالمی امور سمیت دو طرفہ تعلقات اور عسکری تعاون پر بات ہو گی۔
وہ کہتی ہیں کہ چوں کہ پچھلے کچھ عرصے میں ملک سیاسی و داخلی غیر یقینی کا شکار رہا ہے جس سے اب نئی حکومت باہر نکل رہی ہے، ایسے میں یہ ضروری تھا کہ دونوں ملکوں کی قیادت بیٹھے اور مشترکہ مفادات کے حصول کے لائحہ عمل پر اتفاق کرے۔
پاکستان کونسل برائے چین کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ یہ دورہ اس لیے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ پاکستان نے موجودہ معاشی صورتِ حال کو درست کرنے کے لیے جیو پالیٹکس سے نکل کر جیو اکنامکس کی طرف جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت تمام دنیا کے ممالک سے اچھے تعلقات چاہتی ہے جس کی نوعیت معاشی تعلقات کی بنیاد پر ہو گی۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے اس ضمن میں کافی متحرک سفارت کاری کی ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ کے وفود کے تبادلے ہوئے ہیں اور چین کا دورہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، جس کا مقصد ملک میں نئی سرمایہ کاری لانا ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن نے امید ظاہر کی کہ شہباز شریف کا دورۂ بیجنگ کامیاب رہے گا اور اس میں ہر سطح پر دو طرفہ تعاون کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔
سی پیک فیز ٹو کا آغاز
پاکستان کی حکومت نے سعودی عرب اور عرب امارات سے بھی سرمایہ کاری کی بات کی ہے۔ اسی طرح چین سے سی پیک فیز ون کے مکمل ہونے پر فیز ٹو پر بات چیت جاری ہے۔
سن 2014 میں شروع ہونے والے مجموعی طور پر 65 ارب ڈالر مالیت کے سی پیک منصوبے کے تحت چین نے پاکستان میں بجلی کے مختلف منصوبوں اور سڑکوں کے نیٹ ورکس میں بھی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ لیکن حالیہ مہینوں میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد میں سست روی کی شکایات ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف دورۂ بیجنگ کے دوران سی پیک فیز ٹو کے باقاعدہ آغاز کی تقریب میں بھی شریک ہوں گے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چینی سرمایہ کاری اور مالی مدد پاکستان کی مشکلات سے دوچار معیشت کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔
نغمانہ ہاشمی کہتی ہیں کہ سی پیک شروع سے دو حصوں پر مشتمل تھا۔ پہلے مرحلے میں توانائی اور مواصلاتی نظام بہتر کرنے کے بعد صنعتیں اور ٹیکنالوجی پر کام کرنا شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک فیز ٹو میں صنعت کے ساتھ ساتھ، زراعت، آئی ٹی اور تعلیم پر خاص توجہ دی جائے گی اور ریلوے لائن ایم ایل ون بچھائی جائے گی، کیوں کہ بڑے پیمانے پر تجارت سڑکوں سے نہیں بلکہ سمندر یا ریل کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں "ہماری معیشت کا دارومدار زراعت پر ہے اور چین سے زرعی ٹیکنالوجی کے حصول کے ذریعے زراعت میں بہتری لائی جائے گی۔"
Your browser doesn’t support HTML5
نغمانہ ہاشمی کہتی ہیں کہ پچھلی حکومت کے سی پیک منصوبوں پر شکوک و شبہات کے اظہار کے باعث دونوں ملکوں کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ اگرچہ چین نے اس کا اظہار اعلانیہ طور پر نہیں کیا تھا۔
واضح رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت پر سی پیک منصوبوں کی رفتار سست کرنے کا الزام لگتا رہا ہے۔ تاہم تحریکِ انصاف ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔
نغمانہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ سی پیک کے زیادہ تر منصوبے وقت پر مکمل ہوئے ہیں اور تاخیر کے حوالے سے باتیں حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کے واضح خدوخال نظر نہیں آ رہے تھے۔ تاہم وزیرِ اعظم کے دورۂ بیجنگ کے دوران نہ صرف فیز ٹو کا باقاعدہ آغاز وہ گا بلکہ ترجیحات کا اندازہ بھی لگایا جا سکے گا۔
ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بقول چین کی یہ پالیسی رہی ہے کہ اس نے پاکستان کی ضروریات کے مطابق اپنی پالیسی کو ترتیب دیا ہے اور اس دفعہ بھی یہی توقع ہے کہ چین پاکستان کی ضروریات کے مطابق فیز ٹو کے منصوبوں کر ترتیب دے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ کافی عرصے سے سی پیک میں نئے منصوبے شامل نہیں ہوئے ہیں اور فیز ٹو کے ذریعے نئے منصوبے لائے جانے کا امکان ہے۔
'فیز ٹو کا انحصار سیکیورٹی ماحول کی بہتری پر ہو گا'
پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی شہریوں اور چینی مفادات پر عسکریت پسند اکثر حملے کرتے رہے ہیں۔
ایسا تازہ ترین واقعہ مارچ میں ایک خودکش بم دھماکے میں پانچ چینی انجینئروں کی ہلاکت کا تھا۔ یہ انجینئر پاکستان کے شمالی حصے خیبر پختونخوا کے ضلع بشام میں داسو ہائیڈرو پاور منصوبے پر کام کر رہے تھے۔
چینی انجینئرز پر مارچ میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد بیجنگ نے داسو دیامر بھاشا اور تربیلا پانچویں توسیعی پن بجلی منصوبوں پر کام عارضی طور معطل کر دیا تھا۔
نجی سیکیورٹی کمپنی کا مطالبہ اور پاکستان کا انکار
بیجنگ نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں اور وہاں کام کرنے والے اہلکاروں کی حفاظت کی ضمانت دے۔
پاکستان نے بشام حملے میں ملوث 11 عسکریت پسندوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ خودکش حملہ آور افغان شہری تھا۔ اسلام آباد نے حملے کا ذمے دار افغانستان میں موجود پاکستانی طالبان کے ایک دھڑے کو ٹھہرایا تھا۔
بیجنگ نے بارہا اسلام آباد سے کہا ہے کہ وہ نجی چینی کمپنیوں کو سیکیورٹی کی اجازت دیں۔ تاہم پاکستان ماضی میں ایسی درخواستوں کو مسترد کر چکا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کے دورۂ چین کے دوران سیکیورٹی کے حوالے سے بحث حاوی رہے گی اور مستقبل میں سرمایہ کاری کا زیادہ تر انحصار سیکیورٹی ماحول کی بہتری پر ہو گا۔
نغمانہ ہاشمی کہتی ہیں کہ سیکیورٹی چین کا ایک بہت جائز تشویش ہے جس پر وہ پریشان بھی ہوتے ہیں کیوں کہ چینی قیادت کو بھی عوامی دباؤ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ چین کو یہ معلوم ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملے پاکستان اور چین کی دوستی کو متاثر کرنے کی کوشش ہے جس میں دشمن قوتیں کارفرما ہیں۔
نغمانہ ہاشمی نے کہا کہ دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو نقصان پہنچانے کا مقصد چین کے مفادات کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم کے دورۂ بیجنگ کے دوران دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے اور دہشت گرد گروہوں کی بیرونی امداد کو روکنے کی حکمتِ عملی بھی وضع کی جائے گی۔
'امریکہ اور چین میں توازن رکھنا مشکل ہو رہا ہے'
پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے اقتصادی و دفاعی تعلقات پر امریکہ تنبیہ کرتا رہا ہے۔
امریکہ نے پاکستان کو سی پیک منصوبوں کے حوالے سے بھی خبردار کیا کہ اس سے چین کو تو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن اس سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔
ایسے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے بڑھتے تناؤ اور پاکستان پر امریکہ دباؤ کے ہوتے ہوئے اسلام آباد کے لیے بیجنگ سے معاشی و دفاعی تعاون کو بڑھانا آسان نہیں ہو گا۔
نغمانہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اگر امریکہ اور چین کے درمیان تنازع بڑھتا ہے تو یہ ہمارے خطے اور سمندر میں ہو گا اور پاکستان اس سے قطع تعلق نہیں رہ سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خواہش ہو گی کہ وہ ماضی کی طرح کسی بلاک کا حصہ بنے بغیر امریکہ اور چین کو قریب لانے میں کردار ادا کرے۔
ان کے بقول، پاکستان کے چین سے تعلقات مستقل ہیں جب کہ امریکہ سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔
نغمانہ ہاشمی کے مطابق پاکستان نے 75 سال سے چین اور امریکہ سے تعلقات میں توازن رکھا ہوا ہے اور اگر توازن نہ رکھا ہوتا تو چین سے تعلقات آگے نہ بڑھتے کیوں کہ ہم نے اس معاملے میں امریکی دباؤ کو قبول نہیں کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس سے قبل امریکہ کو پاکستان اور چین کے معاشی تعلقات پر اعتراض نہیں تھا جو کہ اب دیکھنے میں آرہا ہے۔
ڈاکٹر فضل الرحمن کے خیال میں سیاسی و عسکری قیادت نے باہمی فیصلہ کیا ہے کہ تمام ممالک سے اقتصادی تعلقات بڑھانے کی کوشش کریں گے۔