پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان افغان طالبان کا نہ تو ترجمان ہے اور نہ ہی افغانستان میں جاری ان کی کارروائیوں کا ذمے دار ہے۔
وزیرِ اعطم خان نے یہ بات جمعرات کو اسلام آباد میں افغان صحافیوں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان کا افغانستان میں کوئی پسندیدہ دھڑا نہیں ہے اور اسلام آباد کابل میں اس حکومت سے اچھے تعلقات رکھنا چاہے گا جسے افغان عوام منتخب کریں گے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل آئندہ ماہ کے اواخر میں مکمل ہو جائے گا۔ لیکن دوسری جانب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان لڑائی میں شدت بھی آ رہی ہے۔
لیکن وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمے دار پاکستان نہیں ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ طالبان افغانستان میں کیا کر رہے اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے آپ کو طالبان سے بات کرنا ہو گی اس کا ذمے دار پاکستان نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہم طالبان کے ترجمان ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے مزید کہا کہ گزشتہ 20 برسوں میں افغانستان میں امریکہ نے فوجی حل تلاش کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہیں ہو سکی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ افغان تنازع کا حل بات چیت کے ذریعے ہونے والے سیاسی تصفیے ہی سے ممکن ہے۔
عمران خان نے یہ بات ایسے موقع پر کہی جب بعض افغان رہنماؤں کے حال ہی میں سامنے آنے والے بیانات میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا تھا کہ اسلام آباد کابل میں اپنی حامی حکومت دیکھنا چاہتا ہے۔
لیکن وزیرِ اعظم عمران خان نے افغان صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ گروپ یا دھڑا نہیں ہے اور پاکستان اس حکومت سے اچھے تعلقات رکھے گا جسے افغان عوام منتخب کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان کا امن پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان افغانستان تنازع کے سیاسی حل کی کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا۔
وزیرِ اعطم عمران خان نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ کوئی ایک فریق تنہا افغانستان کا کنٹرول حاصل نہیں کر سکتا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر طالبان افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو یہ ایک نہ ختم ہونے والی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور اس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔
وزیرِ اعطم نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی طویل ہوئی تو اس سے پاکستان بھی متاثر ہو گا۔
ان کے بقول ہمارے ہاں پہلے ہی 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں لیکن افغانستان میں خانہ جنگی ہوئی تو مزید مہاجرین پاکستان آئیں گے اور پاکستان اقتصادی طور پر مزید افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
یادر ہے کہ کابل حکومت پاکستان پر الزام عائد کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں طالبان اپنی سرگرمیوں کے لیے پاکستان کی سر زمین استعمال کرتے ہیں لیکن پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان میں 30 لاکھ افغان مہاجرین مقیم ہیں یہ سب تقریباً پشتون ہیں ان کی اکثریت کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ ہیں اور ہر روز 25 سے 30 ہزار لوگ افغانستان جاتے ہیں اور واپس آتے ہیں۔
اُن کے بقول اس صورتِ حال میں اس بات پر نظر رکھنا ممکن نہیں ہے کہ کون وہاں لڑائی میں شامل ہونے کے لیے جا رہا ہے۔
وزیرِ اعطم خان نے مزید کہا کہ لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں کیمپوں میں مقیم ہیں اور یہ کیسے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کون طالبان کا حامی ہے اور کون نہیں ہے۔
ساتھ ہی وزیرِ اعطم خان نے واضح کیا کہ اسلام آباد پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اسی لیے پاکستان نے سرحد پر باڑھ نصب کرنے کا کام شروع کیا جو ا ب تک 90 فی صد مکمل ہو چکا ہے۔