افغان حکومت کی طرف سے اسلام آباد میں افغان سفیر اور سفارتی عملے کی واپسی کے اعلان کے بعد پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے افغان ہم منصب حنیف اتمر سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ افغان حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔ دوسری جانب پاکستان نے کابل میں اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں افغان حکومت کا سفارتی عملے کو واپس بلانے کا اقدام مسائل میں اضافے کا باعث بنے گا۔
قبل ازیں اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور بازیابی کے بعد افغان سفارت خانے اور عملے کی سیکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
دفتر خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغان ہم منصب محمد حنیف اتمر کے ساتھ ہونے والے ٹیلیفونک رابطے میں انہیں 16 جولائی 2021 کو ہونے والے واقعے پر پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اقدامات سے آگاہ کیا ہے۔
وزیر خارجہ نے افغان ہم منصب کو یقین دلایا ہے کہ حکومت پاکستان ملزمان کی جلد گرفتاری اورانہیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وزارتِ خارجہ مروجہ سفارتی روایات سے بخوبی آگاہ ہے۔ پاکستان میں قائم افغان سفارت خانے اور قونصل خانے کی سیکیورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ افغان حکومت، پاکستان کی سنجیدہ کاوشوں کو پیش نظررکھتے ہوئے افغان سفیر اور سینئر سفارت کاروں کو پاکستان سے واپس بلانے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے گی۔
افغان وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے اس واقعے کی تحقیقات میں ذاتی دل چسپی لینے پر وزیر اعظم عمران خان کا شکریہ ادا کیا اور افغان سفارت خانے اور قونصل خانے کی سیکیورٹی بڑھانے سے متعلق وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی کی کاوشوں کو سراہا۔
ترجمان پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق افغان وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ افغانستان پاکستان کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے اور ان کے استحکام کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے کابل میں موجود اپنے سفیر منصور احمد خان کو مشاورت کے لیے اسلام آباد طلب کرلیا ہے۔
منصور احمد خان اتوار کی شام اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ سمیت اعلیٰ حکام سے ملیں گے اور افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا اور اس کے بعدافغان حکومت کی طرف سے سفیر اور سفارتی عملہ کی واپسی کے معاملہ پر غور کیا جائے گا۔
’تلخیاں بڑھ رہی ہیں‘
اس بارے میں تجزیہ کار ریٹائرڈ بریگیڈئیر محمود شاہ کہتے ہیں کہ اس معاملے پر افغانستان حکومت کا ردعمل امیچور(غیرسنجیدہ) ہے۔ واقعے کی تفتیش ابھی جاری ہے اور افغان حکومت نے ایک ایسے مرحلے پر اپنے سفارتی عملہ کو واپس بلایا ہے جب کابل میں صورتِ حال گمبھیر ہورہی ہے۔
ان کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے کیوں کہ افغان حکومت کی خواہش ہے کہ پاکستان اس کی حمایت کرے جبکہ پاکستان افغانستان میں غیر جانب دار رہنا چاہتا ہے۔
محمود شاہ کے بقول یہ سب ایک گیم پلان کا حصہ ہے اور افغان سفیر کی بیٹی کا اغوا بھی اسی منصوبے کا حصہ نظر آرہا ہے۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا سٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسرسرفراز خان کہتے ہیں کہ افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل کے اغوا کے مبینہ واقعے سے بطورریاست پاکستان کا تاثر خراب ہوا ہے کہ ہم سفارتی عملے اوران کے اہل خانہ کی سیکیورٹی مہیا کرنے میں بھی ناکام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر اس معاملے میں ریاستی اداروں کے شامل ہونے کا تاثر دیا جارہا ہے۔ واقعے پر افغان حکومت کا ردعمل شدید ہے اور اب پاکستانی سفیر بھی واپس آرہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں تلخیاں بڑھ گئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی دوران چینی انجینئرز پر حملہ ہوا جس کی تفتیش کے لیے بھی چینی حکام خود آرہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات پہلے ہی خراب ہیں۔ ان حالات میں پاکستان سفارتی اور سیاسی تنہائی کا شکار ہوتا نظر آرہا ہے۔
سرفراز خان نے کہا کہ افغان حکومت پاکستان پر طالبان کی حمایت کا الزام لگاتی ہے پاکستان اگرچہ اس کی تردید کرتا ہے لیکن پاکستان کے حکومتی وزیر طالبان کی طرف سے افغانستان پر قبضہ کا اعلان خوشی سے کرتے ہیں۔ ایسے اقدامات سے افغانستان میں صرف حکومتی سطح پر نہیں بلکہ عوامی سطح پر پاکستان مخالف جذبات پیدا ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ افغان عوام اور حکام روس کی بات سننے کے لیے تو تیار ہیں جس نے دہائیوں قبل ان کے ملک پر قبضہ کی کوشش کی تھی لیکن پاکستان کے ساتھ بات کرنے سے احتراز کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے اچھی نہیں ہے۔
مبینہ اغوا کی تفتیش اور سوالات
پاکستان میں افغانستان کے سفیرنجیب اللہ علی خیل کی بیٹی کے اغوا کی تفتیش جاری ہے جب کہ دوسری جانب نجی ٹی وی ’جیو نیوز‘ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی اغوا نہیں ہوئیں۔
انہوں نے اسے بین الاقوامی سازش اور بھارت کے خفیہ ادارے ’را‘ کا ایجنڈا قرار دیا اور کہا کہ ’را‘ نے ساری دنیا میں یہ بات پھیلائی ہے۔ افغان سفیر کی بیٹی کو اغوا نہیں کیا گیا۔
شیخ رشید نے کہا کہ افغان سفیر کی بیٹی سلسلہ علی خیل نے سیکٹر جی سیون میں کھڈا مارکیٹ سے جو ٹیکسی لی اس کا ڈرائیو راور مالک بھی ہماری تحویل میں ہیں۔ افغان سفیر کی بیٹی راولپنڈی گئیں لیکن اب وہ یہ بات نہیں مان رہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ ایف نائن پارک یا دامن کوہ سے انٹرنیٹ بھی استعمال کیا ہے جب کہ راولپنڈی کے گکھڑ پلازہ سے آگے کی فوٹیج نہیں مل رہی ہے۔
اس بارے میں پاکستان کے سوشل میڈیا پر بھی سوالات گردش کررہے ہیں جن میں سلسلہ علی خیل کی طرف سے دیے جانے والے بیان اور اس کے بعد ملنے والی فوٹیجز پر سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
تفتیش میں شامل ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ افغان سفیر کی بیٹی نے جو بیان ریکارڈ کروایا ہے اس میں بہت سے سوالات کے جواب نہیں دیے گئے۔
اہل کار کے مطابق سلسلہ علی خیل کا کہنا ہے کہ وہ راولپنڈی نہیں گئیں جبکہ فوٹیج سے ان کا وہاں جانا ثابت ہوتا ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے دعویٰ کیا کہ موبائل فون چھین لیا گیا لیکن بعد میں لوکیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ موبائل فون ان کے پاس ہی تھا۔
انہوں نے بتایا کہ افغان سفیر کی بیٹی کا موبائل جب تفتیشی حکام کے حوالے کیا گیا تو اس کا واٹس ایپ اور دیگر تمام ڈیٹا ضائع کردیا گیا تھا جس سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا۔
سیکیورٹی اہل کار کے مطابق تفتیشی حکام اس ڈیٹا کو ریکور کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جبکہ دامن کوہ پر اس مقام کی جیو فینسنگ کرلی گئی ہے جہاں افغان سفیر کی بیٹی کے مطابق اغوا کار انہیں پھینک گئے تھے۔
واضح رہے کہ جیو فینسنگ کے ذریعے کسی مقام پر ایک حد کے اندر مخصوص وقت میں استعمال ہونے والے دیگر موبائل فونز کے نمبرز اور ریکارڈ حاصل کیا جاسکتا ہے۔