وعدوں کی عدم تکمیل کے ساتھ اقتدار کا خاتمہ؛ کیا عمران خان کا بیانیہ عوام کو قبول ہوگا؟

فائل فوٹو

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حوالے سے مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی ناکامیوں اور انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل کے باوجود تحریکِ انصاف میں اب بھی یہ صلاحیت ہے کہ وہ لوگوں کو باہر نکال سکتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی ذاتی مقبولیت ہے۔ دوسری جانب یہ آرا بھی موجود ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے مرکزی شہر لاہور میں ہونے والے احتجاج کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس سے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہونے کے بعد پورے ملک میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکن سراپا احتجاج ہیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کا مؤقف ہے کہ عمران خان کو بیرونی سازش کے ذریعے اقتدار سے ہٹایا گیا اور ایک 'امپورٹڈ حکومت‘ ملک پر مسلط کی گئی ہے۔

ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہونے اور عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد پیر کو تحریکِ انصاف کے منحرف اراکین کو چھوڑ کر تمام پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی نے اپنی نشستوں سے استعفے دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔قبل ازیں اتوار کی رات کو تحریکِ انصاف کی کال پر ملک کے کئی شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے جن میں بڑی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی اور عمران خان سے اظہارِ یکجہتی کیا۔

کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور سمیت دیگر شہروں میں ہونے والے بعض مظاہروں میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک نظر آئی۔ خاص طور پر کراچی اور لاہور میں کثیر تعداد میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے مظاہروں میں شرکت کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔

اس دوران جہاں حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا وہیں بعض شرکا نے ملک کی طاقتور ترین فوج اور عدلیہ کو بھی عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کا ذمہ دار قرار دینے کا الزام عائد کیا۔

پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے بھی مظاہروں میں شریک شہریوں کا شکریہ ادا کیا گیا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ملک کے اندر اور باہر مقیم پاکستانیوں نے امریکہ کی ایما پر حکومت کی تبدیلی کو مسترد کردیا ہے۔

تحریکِ عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سابق وزیرِ اعظم کی اپنی ہی جماعت سے سامنے آنے والے منحرفین اور پھر اتحادی جماعتوں کے وفاقی حکومت سے علیحدگی کے اعلانات پر سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنی خامیوں اور ٹیم کی ناکامی کے باعث انتخابی وعدوں کو حقیقت میں تبدیل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ان خدشات کا بھی اظہار کیا گیا کہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کے پاس اقتدار میں دوبارہ آنے کے لیے اب کوئی نعرہ نہیں ہوگا۔

بیشتر انتخابی وعدوں پر عمل درآمد نہ کرنے کے باوجود شہری علاقوں میں عمران خان کی حمایت میں ہونے والے کامیاب مظاہروں نے کئی سوالات کو جنم دیا۔

تجزیہ کار اور صحافی مظہر عباس سمجھتے ہیں کہ ناکامیوں اور وعدوں کی عدم تکمیل کے باوجود تحریکِ انصاف میں اب بھی یہ صلاحیت ہے کہ وہ لوگوں کو باہر نکال سکتی ہے۔

ان کے خیال میں اس کی سب سے بڑی وجہ پارٹی کے چیئرمین عمران خان کی ذاتی مقبولیت ہے۔ جو آج بھی اپنی جگہ قائم ہے۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار کے دوران ہوشربا مہنگائی کی وجہ سے اس کی مقبولیت میں کمی ضرور آئی تھی لیکن گزشتہ دنوں عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد کے حالات، امریکہ کا ان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے مبینہ مراسلہ اور پھر اس تناظر میں بین الاقوامی سازش کا جو تاثر عمران خان نے قائم کیا ، وہ ان کے حامیوں اور ووٹرز میں تیزی سے مقبول ہواہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز اس پر یقین رکھتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کو ایک سازش کے ذریعے ہی ہٹایا گیا ہے اور یہ تاثر قائم کرنے میں عمران خان کامیاب ہوئے ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

وزیر اعظم پاکستان کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی میں کیا ہوا؟

قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی کارروائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ نو اور دس اپریل کو جو کچھ ہوا، اس کے تناظر میں ہونے والے مظاہروں میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے حوالے سے جو نعرے لگے اور ردِ عمل سامنے آیا، لگتا یہی ہے کہ عمران خان اپنے حامیوں میں مظلومیت کا کارڈ بیچنے میں اب تک کامیاب ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان اور تحریکِ انصاف کو سیاسی طور پر اس پوری صورتِ حال کا بھرپور فائدہ پہنچ رہا ہے۔

بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کے متبادل کے طور پر سامنے آنے والے شہباز شریف، ان کے خاندان اور پیپلز پارٹی کی قیادت کرنے والے زرداری خاندان کے بارے میں ان کا بیانیہ بھی ہے۔ عمران خان اپنے ووٹرز کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے ہیں کہ ان کے متبادل سنگین مالی بے ضابطگیوں اور کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جس سے عمران خان کو سیاسی فائدہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ نو منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز شریف کو منی لانڈرنگ کے الزامات کا سامنا ہے جس کا مقدمہ احتساب عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔

مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم کے اس بیانیے کا انتخابات میں انہیں کس قدر فائدہ ہوتا ہے اس کا انحصار نئی حکومت کی کارکردگی پر بھی ہوگا۔

کچھ مبصرین کی رائے میں جمہوری طریقے سے اقتدار سے الگ کیے جانے پر تحریکِ انصاف کے سوشل میڈیا ونگ اور وزیرِ اعظم عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے ساتھی سپریم کورٹ، پارلیمان اور فوج کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں تاکہ عمران خان کے امریکہ مخالف بیانیے کو تقویت دے کر لوگوں کی حمایت میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے اتوار کو ہونے والے مظاہروں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔



تجزیہ کار نجم سیٹھی کے بقول لاہور میں ہونے والا احتجاج تروڑ مروڑ کر سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جس سے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پرانی ویڈیوز کو اپ لوڈ کرکے عوام کی رائے تبدیل کی جا رہی ہے۔

نجم سیٹھی کے خیال میں پی ٹی آئی کا طریقۂ کار رہا ہے کہ ملک کے اداروں کو ٹارگٹ کرکے ان پر دباو ڈالا جائے اور ان سے مرضی کے فیصلے کرائے جائیں۔

انہوں نے تحریک انصاف کو مشورہ دیا کہ انہیں اقتدار کے دوران کی جانے والی غلطیوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔