پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے توہینِ عدالت کیس میں خاتون جج سے معافی اور اپنے بیان کی وضاحت کرنے کی پیش کش کر دی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو تحریری بیان جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت تین اکتوبر تک ملتوی کر دی۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں پانچ رُکنی بینچ نے سماعت شروع کی تو عمران خان خود روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ وہ ملک میں انصاف کی فراہمی کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ اُن کے کسی بیان سے کسی کی دل آزادی ہوئی ہے تو وہ معافی مانگنے کے لیے تیار ہیں۔
عمران خان نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ خاتون جج زیبا چوہدری سے مل کر اُن سے معذرت کرنے اور اپنے بیان کی وضاحت کے لیے تیار ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ عمران خان کے اس اقدام کی قدر کرتے ہیں، اچھا ہے کہ اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے پر تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا ہے جس میں عمران خان کی طرف سے معافی کو بادی النظر میں تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خاتون جج کے پاس جانا یا نہ جانا ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا، اگر آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا اور معافی کے لیے تیار ہیں تو یہ کافی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
عمران خان کو جج سے نہیں عدالت سے معافی مانگنی ہے:جسٹس شائق عثمانی
سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس (ر) شائق عثمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے ابھی عدالت میں جو زبانی بات کی ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور ان کے سر پر توہینِ عدالت کی تلوار اسی طرح لٹک رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ توہینِ عدالت کے کیس میں عدالت معافی قبول کرتی ہے یا نہیں یہ عدالت کی صوابدید ہے۔ عمران خان اپنے بیانِ حلفی میں کیا مؤقف اپناتے ہیں وہ دیکھنے کے بعد ہی عدالت اس بارے میں فیصلہ کرے گی کہ یہ کیس ابھی چلایا جائے یا پھر ان کی معافی قبول کرلی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ خاص نہیں ہوا، ان پر فردِ جرم عائد کرنے کی تاریخ طے تھی لیکن ابھی صرف تاریخ بدلی ہے جو باتیں انہوں نے کیں عدالت نے ان پر نئی تاریخ دی ہے۔
جسٹس شائق کے بقول قانون کے مطابق معافی غیرمشروط مانگی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں۔ اب تک عمران خان نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ اب اگر وہ بیانِ حلفی میں ایسا لکھ کر دیتے ہیں تو پھر یہ عدالت کی مرضی ہے کہ وہ اسے قبول کرتی ہے یا نہیں۔
'خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑنا ضروری ہے'
قانونی ماہر بیرسٹر صلاح الدین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ توہینِ عدالت کے کیس میں معافی عدالت سے ہی مانگنی ہوتی ہے لیکن جج سے معذرت کرنے سے توہین کرنے والے کی نیت ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنے عمل پر شرمندہ ہے۔
اس سوال پر کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں بعض کیسز میں معافی قبول نہیں کی کیا اس کیس میں بھی ایسا ممکن ہے؟ اس پر بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں دونوں طرح کے فیصلے موجود ہیں جن میں کئی کیسز میں عدالت نے معافی قبول کر لی تھی اور کچھ میں فردِ جرم عائد کی گئی۔
اُن کے بقول گزشتہ چند برسوں میں آنے والے فیصلوں میں توہینِ عدالت پر معافی قبول نہیں کی گئی۔ لہذا دونوں طرح کے فیصلے ہونے کی باعث اب اسلام آباد ہائی کورٹ کی صوابدید ہے کہ وہ عمران خان کی معافی کو کیسے دیکھتی ہے۔
جمعرات کی سماعت میں مزید کیا ہوا؟
سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آج ہم صرف چارج پڑھیں گے۔اس پر عمران خان کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے موکل عمران خان گزشتہ سماعت پر بھی عدالت کے سامنے کچھ کہنا چاہتے تھے ،انہیں بات کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس پر عدالت کی اجازت پر عمران خان روسٹرم پر آئے اور کہا کہ میری 26 سال کی کوشش رول آف لا کی ہے۔ میرے سوا جلسوں میں کوئی بھی رول آف لا کی بات نہیں کرتا۔
عمران خان نے کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں خاتون جج کے پاس جاؤں ۔ میں معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں ۔جو میں نے کہا جان بوجھ کر نہیں کہا، میری نیت خاتون جج کو دھمکانے کی نہیں تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کا معافی کا بیان سن کر فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی مؤخر کرتے ہوئے عمران خان کو بیان حلفی جمع کرنے کی ہدایت کردی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے اس بیان کو سراہتے ہیں۔ جوکچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اگر آپ کو غلطی کا احساس ہوگیا تو عدالت اس کو سراہتی ہے۔
جس سے جنگ نہیں لڑنی وہ پاکستان کی عدلیہ ہے: عمران خان
اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطہ میں آنے کے بعد پیدل کمرۂ عدالت تک جاتے ہوئے صحافیوں نے عمران خان سے سوالات کیے جن میں سے بیشتر پر عمران خان مسکراتے رہے۔ تاہم چند سوالوں پر انہوں نے مختصر جواب دیے۔
عمران خان نے صحافی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی پوری فوج تعینات کی گئی ہے۔ ہمارے لیے تو اندر جاناہی مشکل ہوگیا تھا۔ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ مشروط یا غیر مشروط معافی مانگیں گے؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ آپ کو پتا چل جائے گا۔ صحافی نے پوچھا کہ آپ کی عدالتوں سے جان کب چھوٹے گی؟ تو عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی تو نہیں چھوٹنے لگی۔
عدالت سے واپسی پر بھی عمران خان پر سوالات کی بوچھاڑ کی گئی جس پر وہ چند لمحوں کے لیے رک گئے اور کہا کہ میں حقیقی آزادی کی جنگ لڑ رہا ہوں مافیاز کے خلاف، جس سے جنگ نہیں لڑنی وہ پاکستان کی عدلیہ ہے۔اس کے بعد عمران خان تیزی سے چلتے ہوئے باہر اپنی گاڑی تک پہنچے اور روانہ ہوگئے۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس کیوں بنا؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کے دوران اسلام آباد پولیس کے افسران سمیت سیشن جج زیبا چوہدری کو مبینہ طور پر دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔
عمران خان نے کارکنوں سے یہ خطاب شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں سیشن کورٹ کی جج زیبا چوہدری کی جانب سے توسیع دیے جانے کے بعد دیا تھا۔
چیئرمین تحریکِ انصاف عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے بیان پر افسوس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ غیر ارادی طور پر زبان سے نکلنے والے الفاظ پر انہیں افسوس ہے اور ان کے بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔ تاہم عدالت نے عمران خان کے اس بیانِ حلفی کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے 22 ستمبر کو فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو اب اگلی سماعت تک ملتوی کر دی گئی ہے۔