سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ اگست 2019 میں کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے مواقع موجود تھے اور سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی اس حق میں تھے۔
تھنک ٹینک اٹلاٹنک کونسل کے سینئر فیلو اور صحافی وجاہت ایس خان کو دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کا کہنا تھا کہ سن 2019 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) میں جھڑپوں اور کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم ہونے کے باوجود دونوں جوہری طاقتوں کے درمیان تجارتی روابط معمول پر لانا امن عمل کی پہلی کڑی ہوتی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ تجارتی روابط کی بحالی کے بعد بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پاکستان کا دورہ کرنا تھا۔
سابق وزیرِ اعظم نے دعویٰ کیا کہ جنرل باجوہ اُنہیں اکثر بتایا کرتے تھے کہ فوج بھارت کے ساتھ جنگ کے لیے تیار یا لیس نہیں ہے۔
SEE ALSO: 'پاکستان کے دفاع کا فرض نبھانے کے لیے ہر وقت تیار ہیں'خیال رہے کہ سینئر صحافی حامد میر نے بھی چند روز قبل یہ انکشاف کیا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ جنگ کے لیے تیار نہیں ہے اور دفاعی سازو سامان پرانا ہو چکا ہے۔
لیکن پاکستان کے موجودہ آرمی چیف نے ایک بیان میں اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی فوج ہر طرح کے خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ "پاکستان اور بھارت کو کچھ دو اور کچھ لو کے تحت آگے بڑھنا تھا۔ بھارت نے کشمیر پر کچھ رعایت اور روڈ میپ دینا تھا جب کہ میں پاکستان وزیرِ اعظم، مودی کی میزبانی کرنے والا تھا، لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔"
ان کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی پوری کوشش کی، لیکن جلد اُنہیں اندازہ ہوا کہ یہ دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ انتہا پسند تنظیم 'راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور مودی حکومت کا نظریہ پاکستان دُشمنی پر مبنی ہے۔
سابق وزیرِاعظم نے انٹرویو میں خود کو درپیش قانونی چیلنجز پر بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس وقت 160 مقدمات کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی ، ریاست کے خلاف سازش اور کرپشن جیسے مقدمات ہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر خدشہ ظاہر کیا کہ انہیں آئندہ دو ہفتوں کے دوران گرفتار کیا جاسکتا ہے اور ان کے بقول وہ اپنے قتل سمیت کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
بطور وزیرِ اعظم اپنے سیاسی فیصلوں سے متعلق عمران خان نے کہا کہ دیگر غلطیوں کے ساتھ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کرنا ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت ہونے کی وجہ سے انہیں پارلیمنٹ کے ذریعے اصلاحات کے لیے فوج پر انحصار کرنا پڑا کیوں کہ انہیں ایوان میں مطلوبہ اکثریت حاصل نہیں تھی۔
تاہم عمران خان نے اس تاثر کی تردید کی کہ 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی کے لیے انہیں فوج کی حمایت حاصل تھی۔
پاکستان میں موجودہ حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پیپلز پارٹی سمیت عمران خان کے ناقدین پی ٹی آئی پر 2018 کے عام انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کامیاب ہونے کے الزامات عائد کرتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ انہوں نے جنرل عاصم منیر کو اس لیے ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا دیا تھا کہ وہ ان کےساتھ کام نہیں کرسکتے تھے۔ البتہ عمران خان نے اس بات کی مزید وضاحت نہیں کی۔ لیکن انہوں نے انٹرویو میں موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ بات چیت پر آمادگی کا اظہار کیا۔
واضح رہے کہ 2019 میں عمران خان نے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اور موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جگہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
عمران خان نے ان دعوؤں کی تردید کی کہ انہوں نے عاصم منیر کو اس لیے عہدے سے ہٹایا تھا کہ بطور ڈی جی آئی ایس آئی وہ عمران خان کی اہلیہ کے مالی بدعنوانی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق آگا ہ تھے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے امریکہ میں اراکین کانگریس سے رابطہ کرنے اور لابنگ کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کے پیچھے پاکستان کے عوام ہیں اور انہیں کسی غیر ملکی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ بارہا واضح کرچکا ہے کہ امریکہ کسی فرد کے بجائے پاکستان میں جمہوری اصولوں اور قانون کی حکمرانی کا حامی ہے۔
رواں برس نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کی جماعت سے علیحدگی کو عمران خان نے دباؤ کا نتیجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت بھی پاکستان کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور ان کی یہ مقبولیت رواں برس اکتوبر یا نومبر میں متوقع انتخابات میں بھی ان کے لیے مدد گار ثابت ہوگی۔