پاکستان کے سیاسی حلقوں میں اِن دِنوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں پیشی اور سوالات کے جواب موضوع گفتگو بنے ہوئے ہیں۔
عمران خان کی جانب سے پاکستانی فوج کے افسران کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنائی گئی تھی جس کی سربراہی اسلام آباد پولیس کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز شہزاد بخاری کر رہے ہیں۔
عمران خان گزشتہ ہفتےجے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ اس موقع پر عمران خان نے ہر سوال کے جواب میں نو یعنی نہیں کہا۔
جے آئی ٹی کے سامنے عمران خان کی پیشی کی خبر سب سے پہلے دنیا ٹی وی سے وابستہ اینکر پرسن کامران شاہد نے ٹوئٹر پر شیئر کی تھی۔بعدمیں چیئرمین تحریکِ انصاف نے بھی اس خبر کی تصدیق کی تھی۔
کامران شاہد کے مطابق جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا جنرل فیصل نصیر نے آپ کو براہِ راست دھمکی دی ہے؟ جس پر انہوں نے کہا نہیں۔ پھر سوال ہوا کہ آپ جنرل فیصل پر الزامات کیوں لگا رہے ہیں اس پر عمران خان نے کہا کہ انہیں کسی نے آگاہ کیا ہے۔
کامران شاہد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان ملک کے ایک مقبول لیڈر ہیں۔انہیں جے آئی ٹی کے سامنے بتانا چاہیے تھا کہ انہیں دھمکیاں کون دیتا ہے۔ کسی بھی اعلٰی سرکاری افسر کے خلاف یا کسی بھی عام شہری کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے قتل، تشدد اور دھمکانے کے الزامات لگائے لیکن ملزمان کے خلاف کبھی کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے۔ اگر ان کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ یہی ہیں کہ 'انہیں کسی نے بتایا ہے۔'
کامران شاہد کے مطابق اگر یہی کچھ کسی مغربی ملک یا امریکہ میں ہوتا تو عمران خان کو نہ صرف جرمانہ ادا کرنا پڑتا بلکہ تحقیقات بھی ہوتی کہ اُن کے ایک بیان سے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔
تجزیہ کار اور کالم نویس سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ عمران خان عوام کے سامنے کچھ کہتے ہیں اور جب وہ اداروں کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو کچھ اور بیان دیتے ہیں۔جے آئی ٹی کے ہر سوال کے جواب میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ اُن کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔
ان کے بقول عمران خان نے جتنے خوف ناک الزامات لگائے تھے، ان میں وہ کم از کم 20 افراد کو نامزد کر چکے ہیں کہ وہ اُنہیں قتل کرانا چاہتے تھے، اُن کی اس غلط بیانی نے وزیرآباد واقعے کی بھی قلعی کھول دی ہے۔
'عمران خان کے الزامات میں ٹھہراؤ نہیں'
عمران خان خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا الزام فوجی افسر جنرل فیصل نصیر پر عائد کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں ایک ٹوئٹ میں کہا تھا "جب میں جنرل فیصل نصیر کے خلاف مقدمہ تک درج نہیں کروا سکا تو شواہد کیسے مہیّا کر سکتا ہوں؟'
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ عمران خان نے پہلے کہا تھا کہ جنرل باجوہ انہیں قتل کرانا چاہتے ہیں، پھر کہا ڈرٹی ہیری مروانا چاہتا ہے، پھر کہا آصف زرداری مروانا چاہتے ہیں، پھر ایک ٹرائیکا کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ محسن نقوی مروانا چاہتے ہیں۔ چیئرمین تحریکِ انصاف کے الزامات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے الزامات میں ٹھہراؤ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک قومی سطح کے لیڈر کی بات میں اگر غلط بیانی شامل ہو تو اس پر تبصرہ کرنے سے گریز ہی کرنا چاہیے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ایک ریلی میں وزیرآباد کے قریب عمران خان گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے تھے۔ جس پر اُنہوں نے الزام لگایا تھا کہ اُنہیں قتل کرنے کی سازش کی گئی ہے۔
وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ کہتے ہیں عمران خان کے جے آئی ٹی کے سامنے دیے گئے بیان کو تحریری شکل میں لایا گیا ہے جس پر انہوں نے دستخط بھی کیے ہیں۔
ان کےبقول عمران خان نے تفتیش میں اعتراف کیا کہ اُن کے قتل کی سازش سے متعلق جتنے بھی بیانات ہیں ان کی کوئی بنیاد اور ثبوت نہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں جے آئی ٹی کے سوالات کے جواب میں عمران خان کے دستخط کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور اس ضمن میں پراپیگنڈہ کیا گیا کہ عمران خان نے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس جو شواہد اور معلومات ہیں وہ ایک غیر متعلقہ جے آئی ٹی میں جا کر کیسے پیش کر دیں، وہ ہر متعلقہ پلیٹ فارم پر کہہ رہے ہیں کہ اُن کے پاس ثبوت موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری غلام حسین نے کہا کہ اگر عمران خان جے آئی ٹی کو سب کچھ بتا دیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا اس لیے وہ اپنے تمام پتے دیکھ کر کھیل رہے ہیں۔
تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کے خیال میں عمران خان کے خلاف 100 سے زائد مقدمات درج ہیں۔ اُن کی جگہ کوئی بھی شخص ہو تا تو اُس کا برا حال ہوتا لیکن 70 سال کی عمر میں بھی عمران خان ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں عمران خان ساڑھے تین سال ملک کے وزیراعظم رہے اور اُن کےچاہنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے لیکن اب وہ عملی اور انتخابی سیاست سے دور ہوتے جا رہے ہیں جس کا اندازہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور کراچی کی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں دیکھا جا سکتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان کے عوام اپنے حلقوں میں کرائے گئے ترقیاتی کاموں کو یاد رکھتے ہیں اس لیے شخصی ووٹ زیادہ عرصے تک نہیں رہا ۔