عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان کی جانب سے سائفر سے متعلق مبینہ بیان کے بعد یہ بحث جاری ہے کہ چیئرمین تحریکِ انصاف کے خلاف اب کیا قانونی کارروائی ہو سکتی ہے؟
وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نے سائفر اپنے پاس رکھ کر قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور اس جرم میں اُن کی گرفتاری بھی عمل میں آ سکتی ہے۔
بیشتر ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی کارروائی نہیں ہو سکتی کیوں کہ آج تک سائفر کی دستاویز کسی کے سامنے نہیں آئی۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے اس سائفر کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ لیکن اسے بھی عدالت میں ثابت کرنا آسان نہیں اور اگر ثابت کر بھی دیا جائے تو کس شق کے تحت پروپیگنڈا یا بیانیہ بنانے کی سزا دی جا سکے گی۔
164 کے بیان کی اہمیت
سینئر قانون دان عثمان وڑائچ کہتے ہیں کہ اعظم خان کا مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا مبینہ بیان قانونی تقاضوں کے مطابق ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے دیا گیا بیان دفعہ 161 کے تحت لیا جاتا ہے۔
عثمان وڑائچ کے مطابق دفعہ 164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے دیا جاتا ہے اور قانونی طور پر اس کی اہمیت یہ ہے کہ اسے کسی بھی کورٹ آف لا میں بطور شہادت پیش کیا جاتا ہے اور عدالت اسے تسلیم کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف اب تک اس معاملے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا کیس نہیں ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اُن کے بقول سائفر پاکستانی دفترِ خارجہ کی دستاویز تھی جسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ سرکاری دستاویز کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کوئی شق نہیں۔
اُن کے بقول اب دیکھنا ہو گا کہ حکومت اعظم خان کے بیان کو کس طرح استعمال کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بیان کے سیاسی فوائد اٹھائے جا سکتے ہیں لیکن قانونی طور پر شاید عمران خان کو بہت زیادہ نقصان نہ پہنچے۔
'کراس کوئسچن کے بغیر 164 کے بیان کی اہمیت نہیں'
عمران خان کے کئی کیسز میں وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ دفعہ 164 کا بیان اس صورت میں قابلِ قبول ہوتا ہے جب اس میں متعلقہ فریق کو باقاعدہ نوٹس دے کر کراس کوئسچن کیا جائے۔
اُن کے بقول اسحاق ڈار کے کیس میں بھی انہیں اسی بات کا فائدہ دیا گیا تھا کہ جو الزام انہوں نے نوازشریف پر لگایا تھا اس میں نوازشریف پر کراس کوئسچن نہیں ہوا تھا۔
حدیبیہ پیپر مل کیس میں وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے سن 2000 میں دفعہ 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے 45 صفحات پر مشتمل ایک اعترافی بیان دیا جس میں اُنہوں نے شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔
بعدازاں اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ یہ بیان اُن سے زبردستی لیا گیا تھا۔
اظہر صدیق ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یہی معاملہ اب ہے کہ عمران خان کو اس معاملے میں کوئی نوٹس نہیں دیا گیا اور ان سے کوئی سوال جواب نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ "اعظم خان کے لاپتا ہونے اور اچانک مجسٹریٹ کے سامنے آنے سے بھی ان کے بیان پر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں لہذا مجھے نہیں لگتا کہ اس کو شہادت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔"
قانون دان عمر گیلانی ایڈووکیٹ نے اس بارے میں کہا کہ سابق وزیرِاعظم عمران خان پر الزام ہے کہ انہوں نے سائفر کا معاملہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ لیکن ان پر اس سلسلے میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
عمر گیلانی کے مطابق 164 کا بیان شہادت کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اس معاملے میں حکومت کون سا کیس بناتی ہے۔ ابھی فی الحال ایف آئی اے میں سائفر کے معاملے پر تحقیقات ہو رہی ہیں اور امکان ہے کہ وہاں اس بیان کو استعمال کیا جائے گا۔