|
ویب ڈیسک — لاہور ہائی کورٹ نے نو مئی کے 12 مقدمات میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ لاہور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عمران خان کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس انوار الحق پنوں کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے عمران خان کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
جمعرات کو کیس کی سماعت کے دوران جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ انتشار کو ثابت کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی ویڈیو لنک پر حاضری کا نوٹی فکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔
لاہور پولیس نے چند روز قبل اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سابق وزیرِ اعظم کو شاملِ تفتیش بھی کیا تھا۔ تاہم عمران خان نے اپنا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے سے انکار کر دیا تھا۔
اس سے قبل سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ عدالت انہیں ممکنہ طور پر فوج کے حوالے کیے جانے سے تحفظ فراہم کرے۔
درخواست میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں کے آئی جیز کو فریق بنایا ہے۔ درخواست کے متن کے مطابق نو مئی سے متعلق مقدمات میں انہیں فوج کی حراست میں دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے عدالت نو مئی کے کیسز میں حراست سویلین کورٹس کے پاس رہنے کا حکم جاری کرے۔
لاہور ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت میں کیا ہوا؟
جمعرات کو سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ جسمانی ریمانڈ کے لیے ضروری ہے کہ ملزم کو عدالت میں ہی پیش کیا جائے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی مجبوری نہیں کہ عمران خان کو پیش نہ کیا جا سکے۔ سیکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔
سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کا سہارا لے کر یہ جان بوجھ کر عمران خان کو جسمانی ریمانڈ کے لیے پیش نہیں کر رہے۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت میں بتایا کہ گواہ کا بیان ہے کہ عمران خان نے میٹنگ میں حملوں کی ہدایت کی۔ میری استدعا ہے کہ تفتیش کے عمل کو سبوتاژ نہ ہونے دیا جائے۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے اس دوران ریمارکس دیے کہ تفتیشی ملزم کو کہیں لے کر نہیں جا سکتا تو یہ موبائل برآمد کیسے کرائے گا۔
عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور انہیں نو مئی کے واقعات سمیت مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔