پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ہفتے سے حکومت کے خلاف نئی تحریک کے آغاز کا اعلان کر دیا ہے۔ سابق وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ پارٹی کارکن اُن کی کال کا انتظار کریں۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان احتجاج کی کال دے کر حکومت پر جلد انتخابات کے لیے دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے، ایسی کال دینا مناسب نہیں ہے۔
مبصرین کا ماننا ہے کہ سیاسی صورتِ حال اور آرمی چیف کی تقرری کے وقت کو دیکھتے ہوئے عمران خان جلد عام انتخابات کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں برس نومبر کے آخر میں وزیرِ اعظم پاکستان فوج کے چار یا پانچ سینئر ترین جنرلز میں سے کسی ایک کا بطور آرمی چیف انتخاب کریں گے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان اپنے حالیہ بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ ملک میں فوری انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کو ہی نیا آرمی چیف تعینات کرنا چاہیے۔
اپریل میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں وازارتِ عظمی سے ہٹائے جانے کے بعد سے عمران خان مسلسل نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حکومتی اتحادی جماعتیں یہ واضح کرچکی ہیں کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی جس کی تائید رواں ہفتے ہی لندن میں مقیم مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کی ہے۔
تحریکِ انصاف کے مرکزی رہنما سینیٹر فیصل جاوید خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان کی نئی تحریک کا مقصد ملک میں فوری قبل از وقت انتخابات کا انعقاد ہے جس کے لیے اسلام آباد کی جانب عوامی مارچ کیا جائے گا۔
'تحریک کے اعلان سے لگتا ہے پس پردہ مذاکرات ناکام رہے'
مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان احتجاج کے ذریعے جلد انتخابات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔
تجزیہ نگار زاہد حسین کہتے ہیں کہ عمران خان کئی ماہ سے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور اس تحریک کا مقصد اس مطالبے میں شدت پیدا کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ اب تک ان کے مطالبے پر حکومت کی جانب سے کوئی زیادہ مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ ملک کے موجودہ حالات میں فوری عام انتخابات کا انعقاد ممکن دکھائی نہیں دے رہا لیکن اس کے باوجود عمران خان چاہتے ہیں کہ اگر اُن کا مطالبہ نہیں بھی مانا جاتا، پھر بھی وہ دباؤ ڈالتے رہیں۔
'عمران خان اس سال عام انتخابات چاہتے ہیں'
تجریہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی اس تحریک کے ذریعے دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں کہ عام انتخابات کا انعقاد اسی سال ہوجائے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سیلاب کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ تحریک کے لیے مناسب وقت نہیں ہے۔
ان کے بقول ایسے وقت میں جب آدھا ملک سیلاب میں ڈوبا ہوا اور وزیر ِاعظم دنیا سے امداد کی اپیل کررہے ہوں تو عمران خان کو لانگ مارچ کی تاریخ نہیں دینی چاہیے بلکہ انتظار کرنا چاہیے۔
سہیل وڑائچ کے بقول سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی اپوزیشن نے سیلاب کے دوران حکومت مخالف لانگ مارچ کیا تھا، جو ناکام ہو گیا تھا۔ لہذٰا عمران خان کو بھی صورتِ حال دیکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے۔
'عمران خان بیرونی سازش کے بجائے اب نیا بیانیہ لائیں گے'
زاہد حسین کہتے ہیں کہ عمران خان کا بیانیہ وقت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے
ان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اب مہنگائی اور معیشت کی ابتر صور تِ حال کو بنیاد بنا کر نیا بیانیہ بنائے گی جب کہ آرمی چیف کی تقرری کے معاملے کو بھی وہ ایشو بناتے رہیں گے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس لانگ مارچ کا وقت اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کرے۔ اسی بنا پر عمران خان نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کا عمل مؤخر کیا جائے۔
اُن کے بقول عمران خان کی سوچ ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کا حل تب ہی ممکن ہے جب سیاسی استحکام پیدا ہوگا جو کہ ان کی نظر میں انتخابات کے ذریعے ہی آئے گا۔
'عمران خان کے متضاد بیانات مایوسی ظاہر کرتے ہیں'
زائد حسین کے بقول عمران خان فوج اور عدلیہ کے حوالے سے بھی کبھی سخت بیانات دیتے ہیں تو کبھی مصالحت کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے کہ سخت بیانات دے کر اداروں کو دباؤ میں لایا جائے اور پھر نرم پالیسی اپنانے کا تاثر دیا جائے۔
زاہد حسین کے بقول آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے بھی عمران خان متنازع بیانات دے رہے ہیں ک
انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ شاید عوامی طاقت سے وہ اپنا مطالبہ منوا لیں گے۔ لیکن زمینی صورتِ حال یہ ہے کہ تین صوبے سیلاب سے متاثر ہیں اور ایسے میں عوامی طاقت سے تبدیلی لانا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔
'دو صوبوں میں تحریکِ انصاف کی حکومتیں وفاق کے لیے مسئلہ بن سکتی ہیں'
حکومت کی حکمت عملی پر بات کرتے ہوئے سہیل وڑائچ نے کہا کہ لانگ مارچ کی کال کی صورت میں شرکا کو اسلام آباد داخل ہونے سے روکنا وفاقی حکومت کے لیے آسان نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پاس بہت بڑی فورس موجود نہیں کہ وہ لانگ مارچ کے شرکا کو اسلام آباد میں داخل ہونے سے روکیں اور اس کے لیے انہیں صوبوں سے پولیس فورس لینا ہوگی جہاں دو صوبوں میں تحریکِ انصاف کی حکومت ہے۔