فرینچ رویرا کی ساحلی پٹی پر لاسیوتا شپ یارڈزکی جانب سے ایک بحری جہاز کے اخراجات کا ایک بل بنایا جا رہا ہے مگر کوئی نہیں جانتا کہ یہاں لنگر انداز اس بلند قامت سفید رنگ کے بڑے بحری جہاز، "امورے ویرو"کے اخراجات کا یہ بل بھیجنا کس کے نام ہے۔
کسٹم حکام نے دو مارچ کو 86 میٹر طویل اس جہاز کو اس وقت روک لیا تھا جب اس کا عملہ رات کے وقت اس بندرگاہ سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کی وجہ دو روز پہلے یورپی یونین کی جانب سے ایگور سچن پر عائد کی گئی پابندیاں تھیں جو اس روسی تیل کمپنی، روزنیفٹ کے سربراہ ہیں جس پر یو کرین پر روسی حملے کے بعد تعزیریں عائد کر دی گئی ہیں۔
فرانس کی وزارتِ خزانہ کا کہنا ہے کہ یہ بحری جہاز اس کمپنی کی ملکیت ہے جسے روسی صدر ولادی میر پوٹن کے پرانے اتحادی سچن کنٹرول کرتے ہیں۔ وزارت نے کمپنی کا نام ظاہر کرنے سے انکار کیا۔
تاہم، سچن نے روزنیفٹ کے ذریعے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بھیجے گئے ایک بیان میں اس کی تردید کی ہے۔
وزیرِ خزانہ برونو لا موئیرا نے کہا ہے کہ فرانس نے"امورے ویرو" نامی جہاز کو باضابطہ طورپر پکڑا ہے اور عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے جہاز ملک کے قبضے میں آیا ہے جبکہ اس کے اخراجات اس کے مالک کو ادا کرنا ہوں گے۔
لیکن جہاز کی دیکھ بھال کرنے والی دو کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حکام نے تھرڈ پارٹی یا تیسرے کسی فریق کو جہاز کی صورتِ حال سے آگاہ نہیں کیا اور یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی دیکھ بھال کے اخراجات کی ذمہ داری کس کی ہوگی۔چنانچہ بل بڑھتے جا رہے ہیں اور لاسیوتا شپ یارڈزکے ایگزیکیٹو کو پریشانی ہے کہ آخر اخراجات کے بل کی ادائیگی کون کرے گا۔
SEE ALSO: روس کے ارب پتی اولیگارکس ، ’ان پر پابندی سے پوٹن حکومت کی بنیادیں خطرے میں ہیں‘ایلس بوزیو لا سیوتا شپ یارڈز کی کمیونیکیشن افسر ہیں اور وہ کہتی ہیں،" ہم بل بنائے جا رہے ہیں۔ مگرادائیگی کون کرے گا یہ نہیں جانتے۔"
بوزیو نے مزید سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ فرانس کے محکمہ کسٹم نے بھی اس بارے میں کچھ بتانے سے انکار کیا کہ شپ یارڈز کو جہاز کی صورتِ حال کے بارے میں کیوں نہیں بتایا گیا۔
"امورے ویرو" نامی اس جہاز کے بارے میں ابھرتے سوالوں سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ صدر پوٹن کے اتحادیوں کے اثاثوں کو ہدف بناتے ہوئے حکام کو کن پیچیدگیوں کا سامنا ہے اور بعض کاروبار کس گڑ بڑ کا شکار ہو گئے ہیں۔
یورپی یونین میں روسی عمائدین کی دولت کو اب بھی چھوا نہیں گیا مگر یورپی ممالک نے ان کے اثاثے یا تو قبضے میں لے لیے ہیں یا انہیں منجمد کر دیا ہے جن میں کم از کم 11 بڑے بحری جہاز بھی شامل ہیں۔
"سپر یاٹس ٹائمز" نامی ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ ہر دس بڑے بحری جہازوں میں سے ایک روسیوں کی ملکیت ہے۔
ان میں سے کچھ کو ان کے مالکوں پر پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد محفوظ بندرگاہوں پر لنگر انداز کر دیا گیا ہے یا وہ ایسے بحری علاقوں میں موجود ہیں جو پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کے عمل دخل سے باہر ہیں۔
وزیرِ خزانہ برونو لا موئیرا کے مطابق"امورے ویرو" نامی جہاز کو اس لیے پکڑ لیا گیا، کیونکہ پابندیاں عائد ہونے کے وقت وہ فرانس کی بندرگاہ میں تھا اور پر تعیش جہازوں کے لیے مخصوص کمپنی ایم بی 92 کے ساتھ اس کا تنازعہ چل رہا تھا۔ اور پھر جہاز نے بندرگاہ چھوڑنے کی بھی کوشش کی جو وزیرِ خزانہ کے مطابق یورپی یونین کی پابندیوں اور فرانسیسی قانون کی خلاف ورزی تھی۔
بحری امور کے قانون دان پاسکل فلوٹ کہتے ہیں دولتمند شخصیات اکثر اپنے اثاثے مختلف کمپنیوں کے نیٹ ورک کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں اس لیے ان کے اصل مالک کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ سپریاٹس یا وسیع بحری جہازوں کی سالانہ لاگت ان کی اصل قیمت کا دس فیصد تک ہو سکتی ہے جو لاکھوں ڈالر سالانہ تک جا پہنچتی ہے۔
اٹلی میں منجمد شدہ اثاثوں کی دیکھ بھال سرکاری طور پر کی جاتی ہے اور اس کے اخراجات ملکی ادارے برداشت کرتے ہیں جو بعد میں اثاثوں کے مالک یا اس کے ملک سے وصول کر لیے جاتے ہیں، جبکہ فرانس اور سپین میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں یہ ذمے داری مالک کی ہے کہ وہ تحویل میں لیے گئے بحری جہاز کے اخراجات برداشت کرے۔
مگر جن لوگوں پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں ان کے بینک اکاؤنٹ منجمد ہونے کے باعث وہ ادائیگیاں نہیں کر پاتے۔ چنانچہ قانونی ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ ملکوں کو بحری جہاز جیسے بڑے اور مہنگے اثاثے پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے اس کے مضمرات ضرور ذہن میں رکھنے چاہئیں۔
(خبر کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)